پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا منصوبہ…محمد شریف شکیب

خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ وصحت تیمورسلیم جھگڑانے انکشاف کیا ہے کہ صوبائی حکومت تمام اضلاع میں ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کا ایک انقلابی منصوبہ شروع کرنے والی ہے۔ تاکہ صوبے کے دور دراز علاقوں کے عوام کو ان کے گھر کے قریب صحت کی معیاری سہولیات فراہم کی جاسکیں اور شہر کے بڑے ہسپتالوں پر بوجھ کوکم ہوسکے۔ صوبائی حکومت پہلے ہی متعدد دیہی صحت مراکز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کا کامیاب تجربہ کرچکی ہے۔ رورل ہیلتھ سینٹر گرم چشمہ اور مستوج کو آغا خان ہیلتھ سروس کے اشتراک سے کامیابی سے چلایاجارہا ہے۔ ان اشتراکی صحت مراکز کی فیس سرکاری ہسپتالوں کی نسبت اگرچہ زیادہ ہے تاہم وہاں چوبیس گھنٹے ڈاکٹر، طبی عملہ اور تمام ضروری ادویات دستیاب ہوتی ہیں جو دیہی علاقوں کے عوام کے لئے گھروں کے قریب ایک بڑی سہولت ہے۔ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں بیماریوں کی تشخیص کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ ہسپتال ریفر سینٹروں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ کوہستان، بٹگرام، شانگلہ، تورغر، بونیر، دیر، لنڈی کوتل، کرک، ہنگو، کرم، وزیرستان، اورکزئی، باجوڑ، مہمند اور چترال کے دور افتادہ علاقوں بروغل، یارخون، ریچ، لاسپور، شیخ سلیم، ارکاری، سوسوم، ارندو، جنجریت اور مدک لشٹ سے حادثات اور دیگر ہنگامی نوعیت کے کیسزپشاورکے ہسپتالوں کو ریفر کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے پشاور کے تین بڑے ہسپتالوں میں چوبیس گھنٹے مریضوں کارش رہتا ہے۔ ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال پانچ لاکھ سے زائد کی آبادی والے صوبے کے سب سے بڑے ضلع کا واحد صحت مرکز ہے۔ ضلع اپرچترال کے قیام کے باوجود وہاں ڈی ایچ کیو ہسپتال اب تک قائم نہیں ہوسکا۔ دونوں اضلاع کے بنیادی صحت مراکز اور دیہی صحت مراکز میں ابتدائی طبی امداد کی سہولت بھی نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال اور وہاں سے پشاور ریفر کیاجاتا ہے۔ تشویش ناک مریض ساڑھے تین سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے پشاور پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال چترال کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ بی کٹیگری قرار دینے کے باوجوددور افتادہ علاقے کے اس اہم طبی مرکز میں امراض قلب، ہڈی، جوڑوں، گردوں اور مثانے کے امراض کا کوئی ماہر ڈاکٹر موجود نہیں، ماہر ڈاکٹروں کی سات اسامیاں عرصے سے خالی پڑی ہیں۔ ہسپتال میں ایم آر آئی اور سی ٹی سکین کی سہولت ہے نہ ہی امراض چشم کا ماہر اور جنرل سرجن موجود ہے۔ گردوں کی صفائی کے لئے دس سال قبل دو ڈائیلاسز مشینیں ہسپتال کو فراہم کی گئی تھیں مگر انہیں چلانے کے لئے ٹیکنیشن موجود نہیں، آغاخان ہیلتھ سروس کی طرف سے طبی آلائیشات کو محفوظ طریقے سے تلف کرنے کے لئے انسی نیریٹر مشین ڈی ایچ کیو ہسپتال کو عطیے کے طور پر دی گئی تھی۔چلانے والا دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ مشین بھی بے مصرف پڑی ہے۔ ای سی جی ٹیکنیشن نہ ہونے کی وجہ سے بوقت ضرورت وارڈ اردلی سے ٹیکنیشن کا کام لیاجاتا ہے۔ ہسپتال میں پلمبر اور الیکٹریشن،عملہ صفائی بھی چراغ لے کر ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ نچلے درجے کے اکثر ملازمین ہفتوں تک ڈیوٹی سے غائب رہتے ہیں بائیومیٹرک نظام نہ ہونے کا ہسپتال کے ملازمین بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں یہاں انڈی پنڈنٹ مانیٹرنگ کا نظام ناکام ہوچکا ہے۔ ڈسپنسر اور وارڈ بوائز کی طرف سے اپنی جگہ کسی دوست یا رشتہ دار کو ڈیوٹی پر بھیجنے کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔ بیت الخلاء اور وارڈوں میں صفائی کی صورتحال ناگفتہ بہہ ہے۔ ہسپتال کے اندرکھلی نالیوں کے تعفن سے سانس لینا بھی دشوار ہے۔ ہسپتال میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے علاوہ انتظامیہ کے تمام اہلکار موجود ہیں مگر وسائل اور سٹاف دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی بے دست و پا ہیں۔ مختلف شعبوں کے ماہر ڈاکٹروں، سرجنوں، جدید لیبارٹری اور جان بچانے والی تمام ادویات اورطبی آلات سے لیس فارمیسی کے بغیر ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال کا تصور ہی نامکمل ہے۔ڈی ایچ کیو ہسپتال کی اس زبون حالی کی بیشتر ذمہ داری محکمہ صحت پر عائد ہوتی ہے۔صوبائی حکومت کی طرف سے صحت کے شعبے کو اولین ترجیح قراردینے کے باوجود ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی یہ حالت زار افسوس ناک ہی نہیں تشویش ناک بھی ہے۔ وزیر صحت اور صوبائی حکومت کو اس کا ضرور نوٹس لینا چاہئے کہ عوام کو ان کی دہلیز پر صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے حکومتی عزم کو متزلزل کرنے والے عناصر کون ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ کو بھی دکھی انسانیت سے ہمدردی کے جذبے کے تحت اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔انہیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ ہسپتال قومی اثاثہ ہے اور وہاں کا عملہ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ اور مراعات پانے والے عوام کے خادم ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔