بجلی کے بلوں پر سبسڈی…محمد شریف شکیب

حکومت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط پوری کرنے کے لئے بجلی کے بلوں پر سبسڈی ختم کرنے کاعندیہ دیا ہے۔پاور ڈویژن نے تجویز دی ہے کہ چھ ماہ میں دو سو یونٹ بجلی خرچ کرنے والوں کو محفوظ سبسڈی دی جائے۔اگر اس عرصے میں انہوں نے دو سو ایک یونٹ بجلی بھی خرچ کی تو وہ محفوظ سبسڈی کی سہولت سے محروم رہے گا۔ان کا کہنا تھا کہ دو سویونٹ والے صارفین کے پاس لگژری آئٹمز نہیں ہوتے۔ انہیں احساس پروگرام کے تحت محفوظ سبسڈی دی جاسکتی ہے۔ چیئرمین نیپرا نے خبردار کیا ہے کہ اگر بجلی کے بلوں پر سبسڈی ختم کردی گئی تو عوام کی چیخیں نکلیں گی اورانہیں زوردارمعاشی جھٹکا لگے گا،ہم نے قوم کو ذہنی مریض نہیں بنانا ہم نے بجلی بل کو سادہ بناناہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجلی صارفین کو کونسی سبسڈی مل رہی ہے۔ جسے واپس لینے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ممکن ہے کہ بڑے صنعت کاروں اور کارخانہ داروں کو سبسڈی مل رہی ہو۔ اس سے رعایت واپس لینے سے عوام یا ان کی اپنی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستان میں پانی سے سب سے زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ جس کی قیمت چار روپے یونٹ بنتی ہے۔ فرنس آئل، شمسی توانائی، کوئلے، ونڈ اور جوہری توانائی سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے ان سب کو ملاکر صارفین کو بجلی 14روپے یونٹ پڑتی ہے۔ گھریلواستعمال کی بجلی کا بل اٹھاکر دیکھیں تو اس میں جنرل سیلز ٹیکس، محصول بجلی، اضافی ٹیکس، نیلم جہلم سرچارج، ڈیم ٹیکس، ٹی وی فیس اور دیگر ٹیکس اور محصولات شامل کرنے سے ان کا حجم بجلی کی اصل قیمت سے دوگنا ہوجاتا ہے۔ دنیا میں ہرجگہ بجلی سمیت کسی بھی پراڈکٹ کے استعمال زیادہ ہونے پر اس کی قیمت میں رعایت دی جاتی ہے پاکستان واحد ملک ہے جہاں بجلی اور گیس زیادہ استعمال کرنے پر قیمت بھی دوگنی، تگنی کردی جاتی ہے۔ جس گھر میں دو پنکھے اور پانچ بلب جلائے جاتے ہیں ایک ٹی وی سیٹ اور پانی کا موٹرچلایاجاتا ہے اس کا ماہانہ بل چھ سات سو روپے سے زیادہ نہیں بنتا۔ مگر مختلف ٹیکس ملاکر اسے ڈیڑھ دو ہزار کا بل تھمایاجاتا ہے۔ تین سو یونٹ تک بجلی خرچ کرنے پر اس کی فی یونٹ قیمت پندرہ روپے مقرر ہے۔ تین سو ایک سے چار سو یونٹ خرچ کرنے پر قیمت بیس روپے فی یونٹ وصول کی جاتی ہے۔ چار سو ایک یونٹ سے پانچ سو یونٹ تک بجلی خرچ کرنے والوں سے پچیس روپے فی یونٹ اور پانچ یونٹ سے زائد خرچ کرنے پر اٹھائیس روپے فی یونٹ وصولی کی جاتی ہے۔جبکہ کمرشل استعمال کا ریٹ بائیس روپے فی یونٹ ہے۔ ہر مہینے کی بارہ تاریخ کو میٹر کی ریڈنگ ہوتی ہے۔ اگر میٹر میں 299یونٹ خرچ ہوئے ہوں تو دانستہ طور پر ریڈنگ کی تاریخ ایک دن بعد کی درج کی جاتی ہے اور صرف شدہ یونٹ کی تعداد تین سو سے زیادہ دکھا کر صارف سے سینکڑوں روپے اضافی وصول کئے جاتے ہیں۔ایک صارف نے بتایا کہ تین ماہ قبل اس کے گھر کا بل چالیس ہزار آیا۔ حالانکہ وہ ہر مہینے باقاعدگی سے بل ادا کرتا رہا ہے۔ بجلی کے دفتر جاکر پتہ کرایا توبتایاگیا کہ سٹاف کی کمی کے باعث میٹر ریڈر پورے ایریا کو کور نہیں کرپاتا اور گھر سے ہی ہر صارف کے کھاتے میں اپنی مرضی سے یونٹ ڈال دیتا ہے۔ پانچ چھ ماہ بعد جب میٹر چیک کیاگیا تو اس کے ذمے ایک ہزار یونٹ واجب الادا نکلے اور ان کا ریٹ اٹھائیس روپے فی یونٹ کے حساب سے مقرر کرکے چالیس ہزار کا بل بھیج دیاگیا۔ لائن لاسز، کنڈے لگانا اور بجلی کی چوری تقسیم کار کمپنی کی کوتاہی ہوتی ہے مگر وہ اپنی غلطی کی سزا اضافی بل بھیج کر اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی صورت میں صارفین کو دیتے ہیں۔ ایک فیڈر سے بیس بائیس دیہات اور علاقوں کو بجلی فراہم کی جاتی ہے اگر کسی ایک گاؤں کے چند لوگوں نے کنڈے لگادیئے یا بجلی کے بل ادا نہیں کئے تو ان چند لوگوں کے جرم کی سزا لوڈ شیڈنگ کی صورت میں پورے علاقے کو دی جاتی ہے۔ گذشتہ تین سالوں کے اندر مختلف حیلے بہانوں سے بجلی کی قیمتوں میں بیس مرتبہ اضافہ کیاگیا۔ تقسیم کار کمپنیاں جان بوجھ کر صارفین کو تنگ کرتی ہیں جب بل کی ادائیگی صارفین کی استطاعت سے باہر ہوگی تو لوگ میٹر لگانے کے بجائے کنڈے لگانے کو ترجیح دیں گے۔ یاپھر توانائی کے متبادل ذرائع شمسی توانائی پر انحصار کرنے پر مجبور ہوں گے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔