پس وپیش ۔۔۔ یہ ہوتا رہا تو تھوڑی اور چلے گی ۔۔۔ اے۔ایم۔خان

سوشل میڈیا نے ہمیں ڈیجیٹل دُنیا میں لے آئی۔ اب چترال میں چند الفاظ یا مرکب  جو برائے نام اعزاز و القاب کی صورت میں دئیےاور لئے جاتے ہیں اُودھم مچا دی ہیں ۔ چترال میں ایک دوسرے کو،  خود کو ، اپنے خاندان کے کسی فرد کو  ایک ٹائٹل کا حقدار بنا نا یہ ایک میڈیا گیم بن چُکی ہے ۔ جب  ایک صفحے میں یہ پوسٹ ہوگئی تو  اسے زیادہ سے زیادہ پسند کی جائے، شئیر اور اکنالج بھی کی جائے۔ اس عمل میں سوشل میڈیا میں لوگوں کے گروپس بھی بنے ہیں اور وہ ایک دوسرے کیلئے یہ کام کرتے ہیں۔[گوکہ شیئرنگ میں مارکیٹنگ کی چیز اور ایک کاز کو آگے لے جانے میں بھی فرق ہے]

 درحقیقت  یہ ایک احساس [[… ہے  اور مصنوعی بناوٹ کی ایک بڑھتی معاشرتی رجحان ہے جو سوشل امیج سے ڈیجیٹل امیج میں ٹرانزشن کی وجہ سے سیلف  پروفائلنگ اور مارکیٹنگ کو دیکھ کر ہور ہی ہے۔ ہمارے ہاں اسکی نوعیت سماجی ہے اور دوسرے لوگوں کیلئے یہ ایک پیشہ ورانہ کام ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ڈیجیٹل امیج کو دیکھ کر اور اس بناء پر کمپنیز ملازم ہائر کرتے ہیں۔

گزشہ دو سال سے سوشل میڈیا میں ایک ٹر ینڈ شروع ہوئی جسمیں لوگ فیسبک پروفائل فوٹو اپڈ یٹ کرنا شروع کئے جو نہایت  نمایان ہوتے تھے۔ ایک صارف ،سجاد حسین،  نے سوشل میڈیا میں اس تناظر میں  ایک پوسٹ میں  لکھا ، چلو اب ہم اوریجنل فوٹو لگانے کا چیلنج شروع کر دیتے ہیں۔ اسکا مطلب یہ تھا کہ ہمارا اصل فوٹو کسطرح ہے اُس سےجسے ہم فیسبک میں لگاتے ہیں۔ دوسرے تناظر میں اسے دیکھا جائے تو چترال سے  سوشل میڈیا صارفین کا یہ میڈیا پروفائلنگ کی روایت چلنے کی علامت تھی اور اُس کی نوعیت سماجی پروفائلنگ تھی اور اب بھی وہی ہے۔  

 ایک زمانے میں اعزازو القاب اور نام ریاست کی طرف سے دی جاتی تھیں۔  ہندوستان میں لوگوں کو ٹائٹل دئیے جاتے تھے ، پھر فرنگی راج کے دوران رائے بہادر کی لقب ، سر کے علاوہ اور  دوسرے اعزاز دئیے جانے لگے۔  اور آزادی کے بعد  پاکستان میں مختلف مواقع پر لوگوں کو ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے ۔ اب یہ ایوارڈز کام اور  کارکردگی کے علاوہ سیاسی  بھی ہوتے ہیں  یہاں زیر بحث نہیں ۔

اب چترال میں چند الفاظ ایسے ہیں جو بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں اور وہ کیوں ہوتے ہیں یہ ایک الگ سوال ہے  اور یہ کسطرح ہوتے آرہےہیں ایک تاریخی بحث ہے جو کافی گہری ہے جس پر تاریخی اور تنقیدی بحث کی ضرورت اب محسوس ہور ہی ہے۔  

ہمارے یہاں اب موضوع بحث وہ فریم ورک ہونی چاہیے جو اس کالم کا وجہ تسمیہ ہے  جسے بنیاد بناکر لوگوں کو  خطاب یا نام دیا جائے جو اخبار کے رپورٹس اور کالم کے سرخی بن جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں اس پروجیکٹ کو آگے لے جانے کیلئے جو کام ہوا اور ہو رہا ہے وہ قابل غور بات اسلئیے ہے  کہ فلان کو کس نے یہ اختیار دی ہے کہ وہ زید اور بکر کو  ایسے القابات سے نوازے ۔ اور سب سے پہلے وہ فریم ورک جسے بنیاد بناکر ایک ٹائٹل دی جائے اسے واضح کیا جائے تاکہ اسکی ایک ٹھوس بنیاد سمجھ میں آجائے۔میرے خیال میں لوگوں کے کام ، کارکردگی اور کنٹربیوشن کو اکنالج کرنا ضروری ہے  جو وہ معاشرےمیں اور کیلئے کرتے آرہے ہیں لیکن وہ اگر پیشہ ورانہ طریقے اور ایک فریم ورک میں ہو تو اس کی اہمیت بھی  ہوجائے گی۔ یہ درست ہے کہ کسی کام، کارکردگی اور کنٹربیوشن کو ماپنا بھی ایک پیچیدہ اور سائنسی عمل ہے۔ جو لوگ اس پروجیکٹ میں کام کر رہے تھے انہیں اس پر غور کرنا ہوگا گوکہ اب اُن کیلئے کنٹنٹ کی شدید قلت ہورہی ہے۔

چند ہفتے پہلے فیس بک میں ایک صفحےپر  جو ممتاز لوگوں کا بایوگرافی جاری کرتی ہے اُس میں ایک ویڈیو اپلوڈ ہوئی جسمیں دماغی لحاظ سے غیر معمولی حالت میں ایک شخص فائر کرکے ایک شخص کو مار دیتا ہے اور پولیس اہلکار اُس کے ساتھ گتھم گتھا ہو رہے ہیں ۔ گویا اُس پیج میں آنے کا مطلب وہ بھی اُن لوگوں میں شامل ہے جس کے نام کے ساتھ ایک سابقہ لگا دیا جاتا ہے یعنی  وہ بھی ایک امتیازی حیثیت حاصل کرلی جو  ایک بے قصور کو مارنے کے بعد؟  

 سوشل میڈیا نے  ایک کام  کہ ممتاز لوگوں کو عام کر دی۔  جسکا ایک فائدہ یہ ہوا کہ چترال میں ایک بڑی آبادی غیر معمولی کام اور امتیازی کارکردگی کی وجہ سے ممتاز حیثیت کا حامل بن گئے ہیں۔  ہر کوئی اگر نہیں تو ایک سے دوسرے گھر میں  ہوسکتا ہے وہ شخصیت ہے۔  

چترال میں لوگوں کو اغزازی ٹائٹل دینے کا کام انگریزی صفحے سے شروع ہوئی ، اس کی مقبولیت کے بعد اُردو میں بھی یہ کاوش شروع ہوئی اور یہ سفر جاری   ہے اور اب لوگ فیچرڈ رپورٹ پبلش کر رہے ہیں انلائن کیبلز پر۔ لوگوں میں وہ تجسس ، کہ ممتاز بن جائیں کہ اُن کے نام سے پہلے  فخر ، پہلی شخص، بانی، ممتاز اور واحد شخصیت [فرد یا شخص کی قید سے آزاد ہو ] ہیں اُس نے یہ کردی اور وہ ہوگئِ ، یعنی اس ٹائٹل کا حقدار ہے ۔اُس نے یہ کی تھی یا کیا  ہے،  اوراس کام اور کارکردگی کی بنیاد پر اُسے یہ ٹائٹل دینا اسکا حق بنتا ہے ۔یہ عمل سوشل میڈیا کے ایک صفحے کے علاوہ رسمی پروگرامز میں مدعو لوگ بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے زیر اثر  اب یہ مزید زیادہ ہورہی ہے۔ مثال کے طور پر  رپورٹ لکھنے والا  اُسے ‘بابائے’ کا خطاب لکھ دے تو اپنے لئے ‘ممتاز’  کا ملقب لگا دے تو وزن اور بحر دونوں براب ہوجاتے ہیں۔

یہ بھی ایک بڑی پروجیکٹ ہے جو جاری ہے  کہ اپنی خاندان کی  درخت اس طرح تیار کرلی جائے جسکی بیچ کہان کی ہے،  کتنی نایاب ہے ، کس مبارک زمیں سے ہوکر ایک تناور درخت بنی،  جس کے اتنی شاخیں ہیں اور وہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے اور ملک میں پھیلےہوئے ہیں تاکہ لوگوں کو لگے کہ واقعی انسان کا بچہ [آدم زادہ]ہے۔ اور یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ اصطلاح کتنی  انکلوزیو ہے اور کس طرح ایکسکلوزیو  ہوجاتی ہے۔  

چترال سے ایک خاتون،  جو جاپان سے گزشتہ سال یا اس سے پہلے اپنی ڈاکٹریکٹ کی ڈگری مکمل کرکے آئی تھی، ممتاز لوگوں کیلئے مختص فیسبک صفحے پر ایک دفعہ کمنٹ میں لکھ دی ‘کہ یہ لوگوں کو اپنے مرضی سے ٹائٹل دینا کہ اس نے یہ امتیازی کام کرنے پر اس ٹائٹل کا حقدار ہے، یہ ایک غیر سنجیدہ اور نازک کام ہے’ تو یہ ایک ایسی ردعمل تھی جوکہ قابل غور بات تھی۔

چترال ایک چھوٹی بستی ہے جسمیں لوگ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں۔ سوشل میڈیا پروفائلنگ، مارکیٹنگ ، بناوٹ، سجاوٹ  اور شہرت اپنی جگہ لیکن وہ ٹرینڈ جس سے ایک احساس[کمتری اور برتری]، غیر سنجیدگی اور نازک مسائل جنم لیں اور سماجی اور نفسیاتی فاصلے پیدا ہونے کے رجحانات بن جائیں تو معاشرے میں  اُس کی تاثیر غیر صحت مند ہے۔ اور اگر یہ ہوتا بھی رہا تھوڑی اور چلے گی اور آخر میں سوشل حقائق اور ڈیجیٹل پروفائل آپس میں کمپلائنٹ نہ ہوں تو سسٹم کے فنکشن میں فرق آجائے گی تو پھر سسٹم کو دوبارہ سوفٹ وئیر کرنا پڑے گا جس سے ڈیٹا لاز ہونے کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔   

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔