صوبائی مالیاتی ایوارڈ…محمدشریف شکیب

خیبر پختونخوا حکومت نے رواں مالی سال کے لئے بھی صوبائی مالیاتی ایوارڈ جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رواں سال بھی 2017-18کا صوبائی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا نفاذ جاری رہے گا۔ جس کے تحت صوبے اور اضلاع کے مابین صوبائی وسائل کی تقسیم کا ساٹھ فیصد آبادی کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا۔ صوبائی حکومت نے آخری صوبائی مالیاتی ایوارڈتین سال قبل میں جاری کیاتھا۔پی ٹی آئی کی موجودہ صوبائی حکومت نے اب تک کوئی صوبائی مالیاتی ایوارڈ جاری نہیں کیا۔ پرانے پی ایف سی کے تحت صوبائی وسائل کی تقسیم 60 فیصد آبادی،20 فیصد غربت اور20 فیصد انفراسٹرکچر میں پسماندگی کی بنیادپر تقسیم کئے جائیں گے۔فارمولے کے مطابق سالانہ ترقیاتی پروگرام کا30 فیصد حصہ اضلاع کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ وفاق کی سطح پر قومی مالیاتی کمیشن اور صوبوں کی سطح پر صوبائی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کی تشکیل ایک آئینی تقاضا ہے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے تحت تقسیم اختیارات کا جو فارمولہ طے کیا گیا تھا۔اس کے تحت وفاق کے پاس موجود بعض محکمے صوبوں کو دیئے گئے تھے۔ مگر ان محکموں کے اثاثے اور فنڈز صوبوں کو نہیں ملے۔ اسی آئینی ترمیم کے تحت قابل تقسیم قومی محاصل کو وفاق اور صوبوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اور صوبوں کو پابند بنایاگیا تھا کہ وہ اپنے بعض اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر بلدیاتی اداروں کو منتقل کریں۔مگر یہ آئینی ذمہ داری نہ وفاق نے پوری کی اور نہ ہی صوبے اپنے اختیارات میں کمی کے روادار ہیں۔ اختیارات اور وسائل کی تقسیم سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کے انتخابات سے راہ فرار اختیار کر رہی ہیں۔ حالانکہ بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہونے اور تحلیل کے بعد چار مہینوں کے اندر نئے انتخابات کروانا بھی آئینی ذمہ داری ہے۔2019میں بلدیاتی اداروں کی تحلیل کے بعد دو سال کا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود بلدیاتی انتخابات سے چاروں صوبائی حکومتیں ہچکچا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کی تقسیم بھی التواء کا شکار ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جب تک اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر منتقل نہیں کئے جاتے۔ عوام کو ریلیف نہیں مل سکتا۔ دیہی اور شہری علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی، سڑکوں، گلیوں اور نالیوں کی صفائی، کوڑا کرکٹ اٹھانا، فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب، گلیوں کی پختگی، حفاظتی پشتوں، سڑکوں، پلوں کی تعمیر کے علاوہ عوامی ضرورت کے مطابق صحت مراکز اور تعلیمی اداروں کا قیام بلدیاتی اداروں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ شہری ان چھوٹے موٹے کاموں کے لئے ایم پی ایز اور ایم این ایز کے پاس نہیں جاسکتے اور نہ ہی عام لوگوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران اور سینیٹروں تک رسائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے مختص فنڈ گذشتہ تین سالوں سے لیپس ہورہا ہے۔ اور عوام کے مسائل جوں کے توں پڑے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کے لئے تیاریاں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ جب بلدیاتی ادارے وجود میں آئیں گے تو انہیں اختیارات اور فنڈز کی فراہمی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہوگی۔ فنڈز کی تقسیم کا فارمولہ بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ساٹھ فیصد فنڈ آبادی کی بنیاد پر تقسیم کرنے سے شہری علاقوں کو زیادہ حصہ ملتا ہے جبکہ دور افتادہ اور پسماندہ دیہی علاقوں کے لئے مختص بیس فیصد فنڈز اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ صوبائی حکومت کو دور افتادہ علاقوں کی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے پچاس فیصد فنڈز غربت اور پسماندگی کی بنیاد پر دیہی علاقوں کی ترقی کے لئے مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ پسماندہ علاقوں کے عوام کو بنیادی شہری سہولیات میسر آسکیں۔ توقع ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت رواں سال کے دوران بلدیاتی انتخابات کروانے اور آئینی تقاضوں کے مطابق صوبائی مالیاتی ایوارڈ کی تقسیم کے لئے ضروری اقدامات کرے گی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔