دھڑکنوں کی زبان…”مان کا مسئلہ ہے ”…محمد جاوید حیات

ٹی وی مذاکرے کے میزبان (نئی اردو میں ٹاک شو کے اینکر) سے کوئی کہدے کہ یہ پاکستان ہمارا ہے اور تبصرہ کرنے والے سے بھی خواہ اس کا تعلق جس پارٹی سے بھی ہو کہدے کہ جی پاکستان ہمارا ہے۔آپ کا مان آپ کا گھمنڈ،آپ کا غرور آپ کی پارٹی ہو آپ کی ادھوری سیاست ہو آپ کی خدمت سے عاری سیاست ہو جو بھی ہو لیکن ہمارا مان ہمارا ملک ہے جو اس کی درست نہج پہ خدمت کرے گا وہ ہمارا مان ہے ہمارا غرور ہے ہمیں اس پہ فخر ہے مگر ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی کوتاہی اپنی کمزوری اپنی غلط پالیسی ماننے کو تیار نہیں اگر مانیں تو یہ ہمارے مان کا مسئلہ ہے۔ میرے ایک دیہاتی سیدھا سادا بابا بیٹھ کے ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ ٹی وی پہ مذاکرہ ہو رہا تھا میزبان مہنگائی کا کہہ رہا تھا اور ریٹ دے رہا تھا کہہ رہا تھا قیمتیں اتنی بڑھی ہیں۔نمائیندہ اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہا تھا کوئی معقول جواب نہیں دے پا رہا تھا درمیان میں ایک جملہ بولا جس پر دیہاتی چونک پڑا۔جملہ یوں تھا کہ ملک قرضوں پر چل رہا تھا ہم ملک کو اور قوم کو قرضوں سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔۔دیہاتی نے چیخ کر مجھ سے کہا بیٹا اگر یہ لوگ ملک کے قرضے چکا رہے ہیں تو ہمیں مہنگائی کی پرواہ نہیں ہم پانچ سو روپے میں ایک کلو گھی خریدنگے بغیر گھی کے کھانا کھائینگے لیکن قرضوں پر زندگی نہیں گزار سکتے۔قرض لینا بے غیرتی بھی ہے بے عزتی بھی ہے۔اس سمے مجھے مرد قلندر کا شعر یاد آیا
مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطان سب گدا
پھر حکمرانوں کے کچھ نعرے اور دعوے یاد آئے۔۔ہم گھاس کھائینگے لیکن اٹم بم بناینگے۔۔ہم دامن نہیں پھیلاینگے۔۔قرض اُتارو ملک سنوارو۔۔ہم کشکول گدائی توڑینگے۔۔بابا میرے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔۔یہ ساری باتیں بابا کے سمجھنے کی نہیں تھیں۔میں نے کہا بابا اس کے لیے بڑی قربانی چاہیے۔۔جاپان پر اٹم بم گرایا گیا۔۔قوم نے عہد کیا کہ دن میں ایک بار کھانا کھائینگے۔بیس سال تک سب نے اس پر عمل کیا حکمران سے لے کر رعایا تک۔۔انقلاب چین کے بعد موزوتنگ ظالم جو ایک معروف شاعر بھی تھا کہا میرے قوم کے لوگو! زندہ رہنے کے لیے کھانا کھاؤ کھانے کے لیے زندہ نہ رہو۔چرچل نے کہا۔۔ہوٹلوں میں پیٹ کاٹنے کے لیے جاؤ پیٹ بھرنے کے لیے نہیں۔یہودیوں نے یہ سبق مسلمانوں سے پڑھا کہ۔۔قوت لا یموت۔۔اتنا کھاؤ کہ مر نہ جاؤ۔۔مگر ہتھیار خریدو دن کے مقابلے میں اپنے آپ کو مضبوط کرو۔۔بابا مسلمانوں نے دنیا کو سسٹم دیے وہ مسلمانوں سے چرایا گیا۔صلیبی جنگوں کا یورپ کو یہ فائدہ ہوا کہ وہاں نشاط ثانیہ آگیا اُنہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی مسلمانوں سے چرا کر لے گئے یہاں پر اُمت سوگئی وہاں پر مغرب جاگ گیا۔۔بابا ہم قرض لیتے رہینگے اور قرض پر پلتے رہینگے اس لیے کہ ہمارا مان اُلٹا ہے ان کا مان ان کو قرض لینے نہیں دیگا ہمارا مان ہمیں اپنی غلطیاں قبول کرنے نہیں دیگا۔ہم اگر قرض نہیں لینگے تو ہمارے بڑے عیاشی کیسے کریں گے۔کسی وزیر خزانے کو ایک غریب کے باورچی خانے میں لاؤ اور اس سے ناشتہ کراؤ۔ایک جاگیردار کی بچی کو عید کے دن ایک مزدور کے گھر لاؤ اور اس کی بچی کے ساتھ عید منانے کا کہو۔ایک کارخانہ دار کو کسی پگڈنڈی پر ایک گھنٹہ پیدل چلنے کا کہو اس کے ہاتھ میں کچھ سامان بھی دے دیدو۔ایک جج کی بیٹی سے کہو کہ وہ بغیر جہیز کے شادی کرے۔۔۔بابا یہ ناممکنات ہیں۔ یہ لوگ ایسا نہیں کر سکتے نہ یہ قربانی دے سکتے ہیں۔ یہ سب اس قرض کے شاخسانے ہیں اگر قرض نہ ہوگا تو ان کا بھرم کھل جائیگا بابا ان کا مان ٹوٹ جائے گا۔کرپٹ اپنی کرپشن چھپایے گا اقرار نہیں کرے گا کام چور اپنی کام چوری چھپائیگا اقرار نہیں کرے گا کیونکہ مان کا مسئلہ ہے بابا۔۔اگر پوری قوم قربانی دینے پہ تیار ہوجائے تو پہلی قربانی بڑوں کو دینی ہوگی۔۔ان کو اپنی رنگینیوں اور عیاشیوں سے کنارا کرنا ہوگا۔۔مگر ایسا نہیں ہوسکتا بابا ان کا مان ٹوٹ جائے گا۔ اگر یہ سوال ٹی وی کا میزبان مہمان سے پوچھے کہ صاحب یہ ٹیکس کے پیسے یہ ریوینو ملکی پیداوار یہ کارخانے یہ دریا سمندر یہ بندرگاہیں یہ دوسرے ملکوں میں بڑے فائدہ مند ہوا کرتے ہیں ہمارے ہاں کیوں نہیں۔۔مان کا مسئلہ ہے کوئی معقول جواب نہیں آئے گا۔۔۔۔۔بابا سب مان کا مسئلہ ہے تماشا دیکھو۔۔۔ایک کلو گھی کی قیمت کہاں تک جاتی ہے۔۔ملک کے پیسے باہر لیجانے والوں کے پاس اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے۔۔آئیں بائیں شایں ہی ہوگا۔۔۔بابا مان کا مسئلہ ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔