بی بی فوزیہ تیرا شکریہ…تحریر : محکم الدین ایونی

گذشتہ دنوں چترال کے خوبصورت سیاحتی علاقہ ایون کیلئے نو تعمیر شدہ آر سی سی پل کا افتتاح کردیا گیا ۔ دس کروڑ کی لاگت سے پانچ سالوں کی مدت میں تعمیر ہونے والا یہ پاکستان تحریک انصاف کا بڑا پراجیکٹ ہے ۔ یہ پل گو کہ ایون کو مین شاہراہ سے ملانے والا منصوبہ تھا ۔ لیکن اپنی افادیت کے لحاظ سے یہ بین الاقوامی پل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ اس پل پر سے دنیا بھر سے آنے والے وہ تمام سیاح گزریں گے جو قدیم کالاش تہذیب و ثقافت دیکھنے کیلئے کالاش وادیوں میں جانا چاہتے ہیں ۔ اس پل کی افتتاحی تقریب میں معاون خصوصی وزیر اعلی برائے اقلیتی امور وزیرزادہ کے علاوہ بڑی تعداد میں صوبائی وزرا ایم این اے اور ایم پی ایز نے شرکت کی ۔ لیکن جو کمی محسوس کی گئی ۔ وہ پل کی تعمیر کیلئے انتھک کوشش کرنے والی اور اپنے ہاتھوں سے پل کی تعمیری کام کا افتتاح کرنے والی سابق خاتون ایم پی اے بی بی فوزیہ کی عدم موجودگی تھی ۔
ایون آر سی سی پل کی تعمیر بی بی فوزیہ کی محبت اور ان کی مرہون منت ہے ۔ وہ اس کیلئے قدم نہ اٹھاتی ،صوبائی حکومت میں اس پراجیکٹ کیلئے تگ ودو نہ کرتی ۔ تو شاید ہم اب بھی لکڑی کے معلق پل کے ہچکولوں اور ابھرتے کیلوں کے اوپر سے گذرنے پر مجبور رہتے ۔یہ منصوبہ بلا شبہ بی بی فوزیہ کی اپنے ننھیال سے دلی وابستگی کا واضح ثبوت ہے ۔
بہت سے لوگ ایون آرسی سی پل کی تعمیر کی کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جبکہ حقیقت حال یہ ہے ۔ کہ اس پل کی تعمیر کیلئے ایون کے کسی سیاسی لیڈر نے آواز اٹھائی اور نہ کسی ادارے کے آفیسر کا اس پراجیکٹ کی تعمیر میں کوئی ہاتھ ہے ۔ 2014کی بات ہے ۔ ایون چتر معلق پل کی حالت بہت خراب تھی ۔ تختے اکھڑے ہوئے تھے ۔ اور پل پر لگی کیلیں ہاتھی دانت کی طر ح باہر نکلے ہوئے تھے ۔ پل پر گزرنے والی گاڑیوں میں سے کوئی خوش قسمت ہی بغیر پنکچر ہوئے گزرتا تھا ۔ کسی کو سمجھائی نہیں دیتا تھا ۔ کہ کیا کیا جائے ۔ راقم نے اس خستہ حال پل کی تصویر نکالی ۔ تصویر کے ساتھ پل کی شکستہ حالی اور مسافروں کو درپیش مشکلات سے متعلق خبر لگائی ۔ اور اگلے روز اے وی ڈی پی آفس میں اس حوالے سے ایک میٹنگ منعقدکی ۔ کہ اس حوالے سے کیا کیا جائے ۔ اس میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا ۔ کہ بی بی فوزیہ ایم پی اے سے اس سلسلے میں ملا جائے ۔ کہ یہ پل انتہائی خستہ و شکستہ ہو چکا ہے ۔ کسی بھی وقت کوئی بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے ۔ لہذا اس کے متبادل آر سی سی پل تعمیر کرکے موجودہ پل سے لوگوں کو نجات دلانے کی کوشش کی جائے۔ ماہ صیام کے دن تھے ۔ ایم پی اے بی بی فوزیہ اپنے گھر مغلاندہ آئی ہوئی تھی ۔ راقم کے پاس اس وقت اے وی ڈی پی چیرمین کی ذمہ داری تھی ۔ رحمت الہی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبرتھے موجودہ معاون خصوصی وزیر اعلی وزیر زادہ اے وی ڈی پی کے منیجر ، جاوید احمد سوشل آرگنائزر اور آمین اکاونٹنٹ تھے ۔ ہماری پوری کابینہ اگلے دن وقت ضائع کئے بغیر آرسی سی پل کیلئے درخواست اور لکڑی کےمعلق پل کے تصویری اخباری تراشوں کے ساتھ اس کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اور اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ چونکہ ایون آپ کا ننھیال ہے ۔ اس لئے اس رشتے کی بنیاد پر ایون والے آپ سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں ۔ لیکن فی الحال ایون کا بہت بڑا مسئلہ چیتر ایون کے مقام پر ایک آر سی سی پل کی تعمیر ہے ۔ چاہے جو کچھ بھی ہو ۔ یہ پل ہر صورت میں تعمیر ہونا چاہئیے ۔ محترمہ بی بی فوزیہ نے اس وقت کہا کہ میں وعدہ نہیں کرسکتی لیکن میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ چترال کیلئے اگر ایک بھی آر سی سی پل کا پراجیکٹ مجھے دیاگیا ۔ تو اہمیت کی بنیاد پر ترجیحی طور پر اس کی تعمیر ایون میں ہی کی جائے گی ۔ اس کے بعد اُس نےسابق وزیراعلی پرویز خٹک سے ہر ملاقات میں اس پل کے مطالبے کو سر فہرست رکھا ۔ بالاخر انہوں نے ایون پل کی منظوری کی خوشخبری سنادی اور باقاعدہ طور پر بعد آزان اس نے خود اس کا افتتاح کیا ۔ یہ پل بی بی فوزیہ اور پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ایک بڑے تحفے کی صورت میں مکمل ہونے کے بعد عوام کی آمدورفت کیلئے کھل اب گیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے ۔ کہ پراجیکٹ کو منظور کروانے والی چترال کی بیٹی بی بی فوزیہ اس افتتاحی تقریب میں شامل نہ ہو سکی ۔ مگر ان کی اپنے ننھیال والوں کیلئےیہ عظیم تحفہ ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا ۔ یہی نہیں بی بی فوزیہ کی طرف سے لڑکیوں کیلئے گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج کا قیام بھی ایک نہایت اہم منصوبہ ہے ۔ جس پر اگرچہ فوزیہ بی بی کی حکومت سے علیحدگی کے بعد کام سست روی کا شکار ہے تاہم یہ منصوبہ بھی چند سالوں کے اندر مکمل ہو کے رہےگا ۔ ایون کیلئے ان دو پراجیکٹس کی تعمیر پر ہم سابق ایم پی اے بی بی فوزیہ اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔