سپاہی گلبست خان کی شہادت

شاکر گلبستی کے قلم سے

یہ مئی 1999 کی بات ہے۔ ایک گھبرو سجیلا نوجوان آرمی کی ابتدائی تربیت مکمل کرنے کے بعدناردرن لائٹ انفنٹری(NLI)کی ایک مایہ ناز یونٹ میں پوسٹ ہو کر آتا ہے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب کارگل کا معرکہ شروع ہو چکا تھا۔اوریونٹ دراس سیکٹر میں متعین تھا۔ بہت جلد اور قلیل عرصے میں اس نوجوان نے یونٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔اور یونٹ کا ہر فرد ان سے متاثر تھا۔وہ جسمانی طور پر انتہائی پھرتیلا ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی حاضر دماغ ،نڈر ، ہنس مکھ اور انتہائی نرم مزاج نو جوان ہونے کی وجہ سے سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔وہ ابھی ابھی پاس اوٹ ہو کر آنے والا نہیں بلکہ ایک تجربہ کار اور فرض شناس پرانا سپاہی لگتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ کارگل معرکہ کے دوران اکثر ان کے کمانڑروں کو یہ کہتے سنا گیا کہ گل جیسا سپاہی کبھی کبھی پیدا ہوتا ہے۔

جی ہاں یہ سپاہی گلبست تھا جن کو سب گل کے نام سے پکارتے تھے جن کا جزبہ اورreactionدشمن کی گولہ باری کے دوران اور دشمن۔پر ٹوٹ پڑتے اس کے جزبات اور مہارت کو دیکھ کر کوئی یقین نہیں کرتا تھا کہ ان کو یونٹ joinکئے چند ہی ہفتے گزرے ہیں۔ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر وقت خوش رہنے والا اور ہر ایک کا احترام کرنے والا تھا۔دشمن کے ہر خطا ہونے والے وار پر زوردار قہقہہ لگاتا اور وار کرتے ہوئے قہر بن جاتاتھا۔

جولائی کے وسط تک گارگل کا معرکہ اختتام پزیر ہوا۔اور یونٹ کو دراس سے تبدیل کر کے کارگل سیکٹر میں دفاع کا کام سونپا گیا۔ کارگل۔سیکٹر میں بھی گولہ باری کا سلسلہ وقفےوقفے سے جاری رہا۔

یہ3اگست 2000کا واقعہ ہے دوپہر دو بجے کے قریب دشمن نے اچانک ہماری پوسٹ پر توپ خانے سے گولہ باری شروع کی ۔اور اس گولہ باری سے بچنے کے لئے ہم بنکروں میں چلے گئے۔اور ساتھ ساتھ دشمن پر نظر رکھنا بھی بہت ضروری تھا۔چونکہ ہماری زمہ داری دشمن پر مارٹروں سے گولہ برسانا تھا اور ہمیں یہ حکم ملا کہ اپنی حفاظت کرتے ہوئے دشمن کو منہ توڑ جواب دو۔میرا کام فائر کو درستی دینا اور اس کو صحیع نشانے پر پہنچانا جبکہ سپاہی گلبست اور دوسرے ساتھیوں کا کام مارٹر سے گولہ فائر کرنا تھا۔

ہم نے سامنے والے دشمن کی پوسٹ پر جوابی گولہ باری شروع کی جو کہ ان حالات میں ایک مشکل کام تھا۔الله کے فضل سے ہمارے تمام گولے ٹھیک نشانے پر لگے اور دشمن کا بنکر تباہ ہو گیا۔اور دشمن کے بنکر کو تباہ کرنے کی خوشی میں ہم نے نعرہ تکبیر بلندکیا۔عین اسی وقت دشمن کا ایک گولا بلکل ہمارے ساتھ بلاسٹ ہوا اور اس کے ٹکڑے ہمارے جسموں میں پیوست ہوگئے، ۔جس کی وجہ سے میرے ساتھ سپاہی گلبست اور حمزہ بھی شدید زخمی ہوگئے۔

شدید۔زخمی ہونے کے باوجود بھی سپاہی گلبست شہید مکمل ہوش میں رہا ۔اور آخری سانسوں تک۔کلمہ پاک کا ورد کرتا رہا۔زخمی ہونے کے بعد تقریبا” تین گھنٹے تک وہ زندہ رہا اور مکمل حوصلے کے ساتھ دوسرے ساتھیوں کا حوصلہ بھی بڑھاتا رہا۔ان کی شہادت انخلاء کے دوران راستے میں ہوئی اور ان کے ساتھ آنے والوں کے بقول شہید نے اسٹریچر کو زمین پر رکھنے کا کہا اور سب کو کلمہ پڑھنے کا کہا اور خود بھی کلمہ پڑھ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔اور ان کو شہادت نصیب ہوئی۔

یاد رہے کہ گلمت ہنزہ کے اس شہید کے چھوٹے بھائی نائب صوبیدار محمد زمان نے بھی ملک کی۔دفاع کے خاطر جام شہادت نوش کیا ہے۔

آج 6 ستمبر یوم۔دفاع کے دن ان کے بارے میں سوشل اور دوسری میڈیا پر کلمات دیکھ کر سوچا ۔چونکہ میں شہادت کے وقت شہید کے ساتھ تھا اور خود بھی زخمی ہوا تھا اسلئے دوستوں کے ساتھ ان کی شہادت کا واقعہ share کرہا ہوں۔

زیر نظر تصویر اسی مقام کی ہے جہاں وہ شہید ہوئے اور شہادت سے چند دن قبل لی گی تھی۔

بشکریہ: پامیر ٹائمز

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔