دادبیداد…سیاسی بیداری کی آزما ئش…ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

کنٹونمنٹ بور ڈ کے انتخا بات کو پا کستان میں سیا سی بیداری کی آزما ئش قرار دیا جا سکتا ہے یہ انتخا بات ایسے وقت پر ہوگئے جب بلدیاتی انتخا بات میں چھ مہینے رہ گئے ہیں عام انتخا بات میں دو سال رہتے ہیں ایسے وقت پر ملک کی تما م چھا ونیوں میں بورڈ وں کے انتخا بات کا انعقاد بہت مشکل فیصلہ تھا حکومت نے بڑی سوچ بچار کے بعد انتخا بات کی تاریخ کا اعلان کیا اور خیر سے انتخا بات ہو گئے اگلے چند دنوں میں کنٹونمنٹ بورڈوں کے منتخب نما ئیندے حلف اٹھا کر کا م شروع کرینگے یہ درحقیقت سیا سی بیداری کی ازمائش تھی الیکشن کے دن ہم نے پریس کلب کے ہا ل میں بیٹھ کر گزارا ٹیلی وژن پر گھنٹے گھنٹے کی خبریں آرہی تھیں سوشل میڈیا پر بھی ہرگھنٹے کی خبریں تقسیم کی جا رہی تھیں ان خبروں میں کراچی سے لیکر کوئٹہ، سیا لکوٹ سے لیکر پشاور تک ہر حلقہ انتخا ب سے، ہر وارڈ اور ہر پو لنگ سٹیشن سے سیا سی پارٹیوں کے درمیاں ہاتھا پا ئی اور گا لم گلوچ کی باتیں آرہی تھیں پو لیس کے ہاتھوں کار کنوں کی گرفتا ریاں دکھا ئی جا رہی تھیں ان خبروں پر تبصرہ ہو رہے تھے ذرائع ابلا غ پر جو تبصرے ہورہے تھے ان میں ہمارا کوئی حصہ نہیں تھا البتہ پریس کلب کی حد تک ہم بھی اپنے تبصرے کر رہے تھے ایک سینئر اخبار نویس اپنے نما ئندوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے دس بارہ فو ن کا لیں سننے کے بعد انہوں نے سرد آہ بھر تے ہوئے کہا ہمارے سیا سی کا رکنوں میں سیا سی بیداری نا م کی کوئی چیز نہیں ہے ہماری سیا سی جما عتیں انتخا بات کا سامنا کرنے کے لئے تیا ر نہیں ہیں مجلس میں بیٹھے ہوئے سیا سی کا رکن نے اخبار نویس کے جواب میں کہا کہ یہ قصور سیا سی کار کنوں کا نہیں سیا سی جما عتوں کے سر براہوں کا قصور ہے ہمارے ہاں 15قابل ذکر سیا سی جماعتوں کے تما م لیڈر ایک دوسرے کو سیا سی مخا لف سے زیا دہ ذا تی دشمن قرار دیتے ہیں جا نی دشمن قرار دیتے ہیں لیڈر کی تقریر کو اس کے کار کن اپنے لئے نمو نہ اور مشعل راہ سمجھتے ہیں چنا نچہ جس کار کن کے ہاتھ میں ما ئیک آجا تا ہے وہ مخا لف پر بمبا ری شروع کر تا ہے اچھا مقرر اور اچھا کار کن اس کو سمجھا جا تا ہے جس کی زبان تلخ ہو جس کے لہجے میں کڑوا ہٹ ہو اور جو مخا لف کو جی بھر کر طعنے دیتا ہو گا لی دیتا ہو زبان پر آنے والی یہ تلخیاں ہاتھوں میں بھی آجا تی ہیں ہا تھوں سے اسلحہ اور ڈنڈوں تک آجا تی ہیں اگلا ٹکٹ اس کو ملتا ہے جو پکڑا گیا ہو حوالات میں ڈالا گیا ہو قیدو بند سے گذرا ہوا ہو اس کو ”نر بچہ“ کہا جا تا ہے صحا فیوں نے سیا سی کار کن کو غور سے سنا اس کی با توں میں تجربے اور مشا ہدے کا وزن تھا وہ گھر کا بھیدی تھا جو لنکا ڈھا رہا تھا ہمارے ایک دوست نے لقمہ دیا اگر یہ حا لت رہی تو بلدیا تی انتخا بات کس طرح ہو نگے اور پھر عام انتخا بات کا کیا ما حول ہو گا؟ بات دل کو لگی ایک اخبار نویس نے کہا بلدیا تی انتخا بات بھی ہو نگے عام انتخا بات بھی ہو نگے افغا نستا ن میں جنگ کے دوران چار انتخا بات ہو ئے ان انتخا بات میں لا قا نو نیت کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا دوسرے اخبار نویس نے نفی میں سر ہلا تے ہوئے کہا افغا نستان اور پا کستان میں فرق ہے وہاں جنگ کی حا لت میں بھی ملکی نا موس، قومی غیرت اور ننگ کا خیال رکھا جا تا ہے ہمارے ہاں امن کی حا لت میں بھی اپنی پارٹی کے لیڈر کو ملک اور قوم کے مقا بلے میں اولیت اور فو قیت دی جا تی ہے یہاں ملک اور قوم کی عزت و نا مو س کا ذکر نہیں ہوتا اپنے لیڈر کو دکھا نے کا شوق، جو ش اور جذبہ ہوتا ہے اور یہی جو ش و جذبہ لا قا نو نیت کی راہوں کو ہموار کرتا ہے ملک اور قوم گھوڑا ہے سیا سی لیڈر تا نگہ ہے گھوڑے کو آگے با ندھو گے تو یہی حال ہو گا جو ہمارا ہوا ہے ہمارے ایک دوست نے اخبار سے نظریں ہٹا کر چشمے اتارے پیا لی سے چا ئے کا گھونٹ لیا اور سب سے مخا طب ہو کر پوچھا اس کا حل کیا ہے؟ سیا سی بیداری کہاں سے آئیگی؟ بلی کے گلے میں گھنٹی کون با ندھے گا؟ تھوڑی دیر کے لئے سب کو سانپ سونگھ گیا پھر سینئر صحا فی نے کہا اس کا حل یہ ہے کہ بار بار انتخا بات کرائے جا ئیں بلدیا تی اداروں کی مدت 3سا ل ہو نی چا ہئیے صو با ئی اسمبلیوں کی مد ت 4سال اور قو می اسمبلی کی مدت 5سال ہو بار بار انتخا بات ہو نگے تو کار کنوں کی سیا سی تر بیت ہو جائیگی وہ سیا سی بیداری کی آزما ئش پر پورے اتر ینگے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
تمغہ امتیاز ایٹ پاکستان | + رپورٹس/ کالم

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی (14 اگست، 1952ء ) پاکستان سے تعلق رکھنے والے نامور مفکر، مؤرخ، ماہر لسانیات، ادیب، شاعر اور کالم نگار ہیں۔ آپ کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی تحصیل مستوج کے لاسپور بالیم سے ہے، آپ روزنامہ مشرق پشاور، روزنامہ آج پشاور اور دیگر اخبارات، رسایل، جراید میں کالم اور مضامیں لکھتے ہیں۔ کھوار اور اردو زبان میں شاعری کے ساتھ ساتھ اردو اور انگریزی میں آرٹیکل بھی لکھتے ہیں، اس وقت ضلع چترال کے نواحی گاؤں دنین میں مقیم ہیں۔

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔