قدرتی ماحول میں انسانی عمل دخل….محمد شریف شکیب

عالمی موسمیاتی ادارے نے گذشتہ پچاس سالوں میں آب و ہوا میں تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی قدرتی آفات میں 5 گنا اضافے کا انکشاف کیا ہے۔ عالمی موسمیاتی ادارے اور اقوام متحدہ کے آفات کے خطرات کو کم کرنے والے ادارے یو این ڈی ڈی آر نے 1970 اور 2019 کے درمیان ہونے والی قدرتی آفات پر تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ پچاس سالوں کے اندر دنیا بھر میں مجموعی طور پر 11ہزارقدرتی آفات رپورٹ کی گئیں جن میں 20 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ان قدرتی آفات سے دنیا کو 3.64 کھرب ڈالر کا نقصان ہوا۔قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں 91 فیصد ترقی پذیر ممالک میں واقع ہوئیں۔رپورٹ کے مطابق1970 کے عشرے میں 50 ہزار لوگ زلزلے، سیلاب اور طوفان سے مارے گئے۔موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے قحط سالی سب سے زیادہ جان لیوا آفت ثابت ہوئی جس کے باعث6 لاکھ 50 ہزار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔دنیا میں آنے والے طوفانوں میں پانچ لاکھ77ہزار سے زائد اموات ہوئیں۔سیلابوں میں 58ہزار 700لوگ مارے گئے۔شدید گرمی اور سردی سے 55ہزار 800افراد ہلاک ہوئے۔رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہونے والے سمندری طوفان ہاروی نے 96.9 بلین ڈالرنقصان کیا۔قدرتی آفات نے براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ تباہی مچائی۔یہاں قدرتی آفات کے 3454 واقعات رونما ہوئے ہوئے جن میں 9لاکھ 75ہزار622 افراد اپنی جانوں سے گئے اور مختلف ملکوں کو2 کھرب ڈالر کا نقصان ہوا۔ دنیا بھر میں ہونے والی موسمی، ماحولیاتی اور پانی سے متعلقہ آفات میں سے 36 فیصد ایشیائی ممالک میں ہوتی ہیں ان آفات میں 45 فیصد سیلاب اور 36 فیصد طوفان شامل ہیں طوفانون میں 72 فیصد جبکہ سیلابوں کے نتیجے میں ہونے والے اقتصادی نقصان کی شرح 57 فیصد رہی۔ براعظم افریقہ میں قحط سالی سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوئی اور افریقہ میں تمام اموات میں سے 95 فیصد قحط کی وجہ سے ہوئیں۔قدرتی آفات میں زلزلے سب سے زیادہ خوفناک اور تباہ کن ہوتے ہیں۔سائنس ترقی کے عروج پر پہنچنے کے باوجود زلزلوں کے بارے میں پیشگی بتانے سے قاصر ہے۔ پاکستان میں کوئٹہ اور شمالی علاقوں میں ہونے والے تباہ کن زلزلوں کے اثرات ابھی تک محسوس کئے جارہے ہیں۔ خشک سالی، اچانک بارشوں اور سیلاب جیسے قدرتی آفات میں انسانوں کا عمل دخل ہوتا ہے جب انسان قدرتی ماحول کو دانستہ یا نادانستہ طور پر نقصان پہنچاتا ہے توشدید گرمی،طوفانی بارشوں اور سیلاب کی صورت میں قدرتی آفات نازل ہوتی ہیں اور تباہی و بربادی کی داستانیں چھوڑ جاتی ہیں۔ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں جنگلات پائے جاتے ہیں۔ جن میں ہزارہ ڈویژن، کشمیر اور ملاکنڈ ڈویژن شامل ہیں ٹمبر مافیا گذشتہ کئی عشروں سے جنگلات کی وسیع پیمانے پر کٹائی میں مصروف ہے جس کی وجہ سے گھنے جنگلات اب چٹیل پہاڑوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ یہ مافیا اتنا طاقتور اور منہ زور ہے کہ کسی بھی حکومت کے قابو میں نہیں آرہی۔ جنگلات اور جنگلی حیات کے محکمے بھی ان کے سامنے بے بس ہیں۔ ملک میں ہر سال موسم گرما، سرما، بہار اور خزاں میں شجرکاری مہمات چلائی جاتی ہیں۔ جن میں کروڑوں اربوں روپے لگائے جاتے ہیں۔ ان مہمات کے دوران لاکھوں کروڑوں پودے لگانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ پودے بہار کا ایک موسم بھی نہیں دیکھ پاتے۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا۔ اور پھر وفاقی سطح پر بھی دس ارب درخت لگانے کی مہم شروع کی گئی ہے ان مہمات کو عالمی سطح پر بھی کافی پذیرائی ملی ہے مگر برسرزمین ان مہمات کے بھی زیادہ حوصلہ افزاء نتائج نظر نہیں آرہے۔تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ حکومت کو قدرتی ماحول کے تحفظ کا احساس ہے۔ان مہمات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ان میں عوامی اشتراک ناگزیر ہے تاکہ پودے لگانے کے ساتھ ان کی نگہداشت بھی ہوسکے۔ قدرتی آفات کی شدت اور ان کے نتیجے میں جانی و مالی نقصانات کو کم کرنے کا یہی واحد ذریعہ ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔