مہنگائی کا شتر بے مہار…محمد شریف شکیب

کورونا وباء نے پوری دنیا کی معیشت کا ہلاکر رکھ دیا ہے۔امریکہ، برطانیہ، ارجنٹائن، بلجیم، فرانس، نیدر لینڈ اور جرمنی جیسے ترقیافتہ ممالک میں بھی لوگ مہنگائی کے خلاف احتجاج پر مجبور ہوئے ہیں۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق برطانیہ میں پٹرول کا بحران سراٹھانے لگا ہے۔ پاکستان میں بھی مہنگائی نے عوام کی کمردوہری کردی ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے حوالے سے جاری کردہ سرکاری رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران مہنگائی کی مجموعی سالانہ شرح 14.33فیصدپرپہنچ گئی۔ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 57.14 فیصد اضافہ ہوا۔ مرغی کا گوشت110روپے سے 270 روپے فی کلو تک جاپہنچا۔چھوٹے گوشت کی قیمت گذشتہ تین سالوں میں 700 روپے فی کلوسے بڑھ کر 1250 روپے فی کلو ہوگئی۔بڑا گوشت 480 روپے سے650 روپے فی کلو ہوگیا۔ انڈے90 روپے فی درجن سے180 روپے فی درجن ہوگئے۔کوکنگ آئل کی قیمت 120روپے لیٹر سے 310روپے لیٹر ہوگئی۔ پٹرول کی قیمت تین سالوں میں 68روپے فی لیٹر سے 123روپے فی لیٹر تک جاپہنچی۔پٹرول، ڈیزل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اب ہفتہ وار بنیادوں پر اضافہ ہونے لگا ہے۔ تیل اور بجلی کے دام بڑھنے کے ساتھ ہر چیز کی قیمت خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ حکومت نے مزدور کی کم سے کم ماہانہ اجرت بیس ہزار روپے مقرر کررکھی ہے۔ حالانکہ 95فیصد نجی ادارے اپنے ملازمین کو حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم اجرت نہیں دیتے۔ اور اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کے لئے حکومت کے پاس کوئی میکینزم بھی نہیں ہوتا۔ بیس ہزار ماہانہ تنخواہ میں آٹھ افراد پر مشتمل خاندان کا ماہانہ بجٹ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ماہرین معاشیات بھی نہیں بناسکتے۔ تین وقت کے کھانے پر چھ سات سو روپے لگ ہی جاتے ہیں۔ صرف جسم و جان کا تعلق برقرار رکھنے پر ہی مہینے میں پندرہ بیس ہزار روپے لگ جاتے ہیں۔ یوٹیلٹی بلز، بچوں کے تعلیمی اخراجات،ان کے لئے کپڑے، جوتے اور دیگر ضروریات کہاں سے پوری کئے جائیں۔غمی خوشی ہر انسان کے ساتھ لگی رہتی ہے۔ بیماری کی صورت میں علاج کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ ادویات کی قیمتوں میں بھی تقریباً ہر مہینے اضافہ ہورہا ہے۔اور جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں عام لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں۔ کاروباری طبقہ کسی نہ کسی طرح اپنا گذارہ کرہی لیتا ہے کیونکہ اسے ہول سیل مارکیٹ سے چیز مہنگی ملے گی تو اس کے پرچون ریٹ بڑھادے گا۔ تنخواہ دار طبقہ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ کیونکہ مہنگائی کے تناسب سے اس کی تنخواہ نہیں بڑھتی۔ اس لئے کچھ لوگ تو گھر کا چولہا گرم رکھنے کے لئے دو دو نوکریاں کرتے ہیں جبکہ باقی لوگ ایک وقت کا کھانا کم کرکے اخراجات کو بجٹ کے اندر رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ عوام باشعور ہیں انہیں کورونا کی وجہ سے عالمی سطح پر معاشی کساد بازاری کا علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کمرتوڑ مہنگائی کے باوجود لوگ احتجاج کے لئے سڑکوں پر نہیں نکلے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ گھر کے واحد کفیل کواحتجاج کے دوران کچھ ہوگیا یا وہ گرفتار ہوکر جیل پہنچ گیا تو زیر کفالت افراد کا کیا بنے گا۔ حکومت نے عوام کو کھلی مارکیٹ کی نسبت سستی اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لئے جگہ جگہ سرکاری سٹور کھول رکھے ہیں حکومت سرکاری سٹور پرفراہم کی جانے والی اشیاء گھی، کوکنگ آئل، چائے پتی، آٹا، چینی، مصالحہ جات پراربوں روپے کی سبسڈی دے رہی ہے مگر سٹور پر سبسڈی والی اشیاء دستیاب نہیں ہوتیں یہ سامان ویئرہاؤس سے براہ راست اوپن مارکیٹ پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان کے عام شہری کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے اور بنیادی ضروریات پوری کرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ اس کے لئے اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانا کشمیر، فلسطین، افغانستان کے مسائل، امریکہ کے ساتھ تعلقات، کرکٹ کی بحالی، نیب اپوزیشن محاذ آرائی، حکومت الیکشن کمیشن تنازعے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین، سٹاک ایکس چینج کے کاروبار، ڈالر کی اونچی اڑان اور سیاست دانوں کی دیگر پسندیدہ موضوعات سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔