تلخ و شیریں، ٹیچر ڈے اور حمیدہ ایجوکیشن اکیڈمی…۔ نثار احمد

دو دن قبل یومِ استاد سوشل میڈیا بالخصوص فیس بُک پر نہایت ہی جوش و خروش سے منایا گیا۔ جوش و خروش سے اس دن کو منانے والوں میں اساتذہ ہی پیش پیش رہے۔ اپنے جذبات حروف و الفاظ میں ڈھال کر یوم استاد منانے والے یہ اساتذہ اپنے اساتذہ کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے تھے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اساتذہ کی بجائے دیگر شعبہائے زندگی کے لوگ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے۔ اور محبت و عقیدت کے دو بول اپنے اساتذہ کی نذر کرتے

 فرینڈ لسٹ میں بڑی تعداد میں پولیس اہلکار، ڈاکٹرز، بیوروکریٹس سمیت دیگر طبقہائے زندگی کے افراد موجود ہیں. مجال ہے کہ سوائے چند کہ ان میں سے کسی نے اس مہم میں حصہ لینا گوارا کیا ہو۔  یہ ایک مثال اساتذہ کے تئیں ہمارے معاشرے کی نفسیات و ترجیحات سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ یا تو ہمارا معاشرہ اساتذہ کرام کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے یا پھر ان کو ایک حریف گروہ کے طور پر لے رہا ہے۔ جب تک معاشرے اور استاد میں قابلِ رشک انڈر اسٹنڈنگ اور مثالی تعلق نہ ہو،تب تک تعلیمی لحاظ سے معاشرتی ترقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

 اس صورت حال کے تناظر میں معلمی کے پیشے سے وابستہ افراد کو منقبض ہونے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ آیا کہ ہم خود واقعی مثالی استاد کے درجے پر فائز بھی ہیں؟ اگر جواب نفی میں یا بیچوں بیچ ہے تو پھر ایک استاد کے لیے مطلوب صفات و عادات سے خود کو متصف کرنے میں زرہ برابر کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔

بچپن سے میری ایک ہی خواہش تھی کہ استاد بن کر بچوں کو پڑھاؤں۔ مدرسے میں گیا تو بھی اس خواہش کو زنگ آلود ہونے نہیں دیا۔ اسے پالا پوسا، جوان کیا پھر ایک دن ایسا آ گیا کہ اس خواہش نے عملی جامہ اوڑھ لیا۔  آج الحمد للّٰہ بطورِ استاد اپنی زمہ داری نبھانے کی کوشش کر رہا ہوں اور اس دن کے انتظار میں ہوں کہ حقیقی معنوں میں ایک استاد بن سکوں۔

معلمی یقیناً نہایت ہی معزز پیشہ ہے، انتہائی توجہ طلب اور حساسیت کا متقاضی بھی۔ معاشرے کی سرد مہری ایک طرف، لیکن کبھی کبھار کسی شاگرد کی طرف سے ملنے والی محبت سیر، سوا سیر خون ہی نہیں بڑھاتی ، ساتھ ساتھ ایک استاد کو نہایت شادان و فرحان بھی کرتی ہے۔

چند روز قبل ایک دو دوستوں کے ساتھ حمیدہ ایجوکیشن سینٹر دنین گیا تھا وہاں بیسیوں پھول جیسے بچے ظہرانہ تناول کرنے کے بعد کیلوں (Bananas) سے نمٹنے میں مصروف تھے جونہی میں اندر داخل ہوا دو بچے بڑے ہی احترام، خلوص، محبت اور اپنائیت بھری نظروں سے مجھے گھورنے لگے۔ میں ابھی یادداشت ٹٹول کر بچوں کو پہچاننے میں مگن ہی تھا کہ ایک ان میں سے ایک بچے نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملاتے ہوئے ان الفاظ میں تعارف اپنا کرایا کہ

    ” سر میں اویر کے سکول میں  آپ کا شاگرد تھا۔ برم اویر میں میرا گھر ہے”

 اگرچہ ساتویں جماعت کے ان بچوں کی درسگاہ میں میرا باقاعدہ سبق نہیں تھا لیکن مرخص اساتذہ کی جگہ چند بار اس کلاس میں داخل ہونے اور پڑھانے کا شرف ملا تھا۔ یہاں اس بچے کے محبت بھرے دو جملوں نے مجھے کتنا خوش کیا، ناقابلِ بیان ہے۔

 حمیدہ ایجوکیشن سینٹر (دنین, چترال) مولانا عماد کا قائم کردہ ادارہ ہے اس  میں ایسے بچے مقیم ہیں جو والد جیسے شجر ِ سایہ دار کی گھنیری چھاؤں سے محروم ہیں۔ ان بچوں کی سکونت واقامت تو یہاں ہوتی ہے لیکن پڑھائی چترال ٹاؤن کے مختلف بہترین سکولوں میں ہوتی ہے۔ نوٹس بورڈ پر لگے لینگ لینڈ سکول کی طرف سے ارسال کردہ مراسلے سے معلوم ہو رہا تھا کہ دو تین بچے لینگ لینڈ جیسے معیاری سکول میں زیر ِ تعلیم ہیں۔  اسی طرح سینٹینل ماڈل سکول سمیت دیگر اچھے سکولوں سے بھی یہاں کے سکونت پذیر بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ادارے کا نظم قابلِ اطمینان ہے۔ مانیٹرنگ کے لیے کیمرے نصب ہیں۔ بچوں کے سونے کے لیے تین منزلہ چارپائیاں موجود ہیں۔ جامعہ اشرفیہ کا فاضل مولانا نور شاہد یہاں وارڈن ہے۔ اندر داخل ہوتے ہی جس چیز پر پہلی نظر پڑتی ہے وہ نوٹس بورڈ ہے۔ نوٹس بورڈ پر تمام بچوں کا مکمل ریکارڈ آویزاں ہے۔

 ایسی جگہوں پر جا کر بہت فرحت محسوس ہوتی ہے جہاں ضرورت مند بچوں کے قیام و طعام اور تعلیم و تربیت کا انتظام ہو۔ ایسے اداروں میں پلنے، بڑھنے اور پڑھنے والے بچے معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے معاشرے کے نہایت  مفید شہری بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا موصوف کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ انسانیت کی خدمت میں زریعہ بن رہے ہیں۔ فی الوقت زمینی منزل تیار ہو چکی ہے مزید تعمیراتی کام مخیّرین کی توجہ کا منتظر ہے۔ امید یہی ہے کہ ادارہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔