کچھ ہم سے سنا ہوتا

ببانگ دہل۔ زارمراد چترالی

حسب معمول نائی بادشاہ سلامت کے بال درست کررہا تھا اور وزرا باری باری ملکی حالات پر بادشاہ کو اگاہ کر رہے تھے۔سارے وزرا رعاکی خوشحالی،معیشت کی بہترین صورتحال اور بادشاہ کی عوام میں مقبولیت سمیت ہر ایک معاملے میں دل خوش کرنے والی باتیں سنا سنا کر بادشاہ سے بھی داد اور شاباش سمیٹ کر خوشی خوشی دربار سے نکل رہے تھے۔یہ بادشاہ کا معمول تھا کہ ہر صبح نائی سے بال سنوارتا اور وزرا سے ملکی حالات پر تبادلہ خیال کرتا تھا۔سارے وزرا سب کچھ اچھا کی رپورٹ پیش کرتے۔کوئی بھی کسی مسلے کے بارے میں بات نہیں کرتا۔روز روز نائی بھی یہ سن کر دل ہی دل میں تپ رہا تھا۔لوگ بیروزگاری،مہنگائی اور غربت سے پریشان مگر ان کے نمائیندے سب کچھ ٹھیک کے نعرے لگا رہے تھے۔ایک دن نائی سے رہا نہ گیا۔بادشاہ سے مخاطب ہوا اور کہا کہ ظل الہی اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔بادشاہ نے بات کرنے کی اجازت دے دی تو نائی بھی نمناک آنکھوں کے ساتھ گویا ہوا۔بادشاہ سلامت آپ کے سارے وزرا آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔عوام حد سے زیادہ پریشان ہے۔فاقہ پڑا ہوا ہے۔روزگار نہیں مل رہا اور بیروزگاری،غربت اور اوپر سے مہنگائی نے تو عوام کا جینا دوبھر کر کے رکھ دیا۔لوگ آپ کو بددعائیں دےرہے ہیں۔اگر یہی صورتحال رہی تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں بھوکی عوام آپ کے محل پر دهاوا نہ بول دے۔بادشاہ یہ سن بڑاغصہ ہوا۔نائی کو کہا کہ آج کے بعد تم نائی نہیں بلکہ میرے وزیر ہو۔اس محل میں رہوگے اور مجھے عوام کے بارے میں بتاؤ گے۔نائی اب محل میں رہنے لگا تھا۔کچھ مہینہ تو بادشاہ کو عوام کا دکھڑا سناتا رہا۔ پھر ایک دن دوسرے وزرا کی طرح “سب اچھاہے” کا نعرہ لگانا شروع کیا۔بادشاہ نے بڑے تعجب سے پوچھا کہ کیسے اتنی جلدی سب کچھ ٹھیک ہو گئے۔اچانک غربت کیسے چند مہینے میں ختم ہو گئی اور روزگار ملنا شروع ہو گیا۔نائی کے پاس سوائے سچ بولنے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت میں یہاں آپ کے اس پر تعیش محل میں رہنے لگا ہوں۔پہلے میں اپنے چھوٹے اور مسائل سے بھرپور گاؤں سے آتا تھا تو مجھ جیسے بہت سارے لوگ ملتے تھے،میں بھی چونکہ ان مسائل کا شکار ہوتا تھا اس لیے ہر ایک کا دکھڑا بھی میں سنتا تھا تو مجھے پتہ ہوتا تھا۔یہاں تو ہر ایک چیز کی فراوانی ہے اس لیے میں باہر وہ غربت و افلاس والی دنیا ہی بھول گیا۔ہم پاکستانی عوام بھی وزرا اور نائی کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔یہاں ہمارے زیادہ تر نمائیندے تو پیدائشی وزیر ہیں۔ان کا رہن سہن،لباس،خوراک اور دوسری تمام ضروریات زندگی باقی پاکستانی عوام سے بہت مختلف ہیں۔انہیں کبھی بھی لوڈ شیڈنگ کا مقابلہ نہیں کرنا پڑا ہے۔وہ چوبیس گھنٹے ایئر کنڈیشنڈ میں زندگی گزارتے ہیں۔انہیں یہ نہیں پتا کہ بھوک کیا ہوتی ہے۔یہاں تک کہ ان کے کتے بھی بھوکے نہیں سوتے۔سردیاں اور گرمیاں ایک غریب گھرانے کے لیے کتنی سخت ہوتی ہیں ان کو اندازہ ہی نہیں ہے۔کیسے ایک مزدور باپ اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے اور غربت کی وجہ سے بھوکے بچوں کو کیسے چپ کراتا ہے۔کیسے پڑھائی کا شوق رکھنے والے بچوں کو سکول سے نکال کر کسی ورکشاپ یا پھر کسی دکان میں دہاڑی پر لگا لیتا ہے اور ان کے ننے ہاتھوں کی دن بھر کی مشقت سے کمائی ہوئی ایک وقت کی روٹی کھاتا ہے۔ کیسے کسی چوک کا مزدور دن بھر انتظار کے بعد بغیر کچھ کمائے گھر میں کھانے کی آس میں بیٹھے بچوں کے پاس واپس لوٹتا ہے۔ایک ہی تنخوا پہ کئی لوگوں کا خرچ اٹھانے والا شخص مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے جس کرب میں مبتلا ہوتا ہے یہ وہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔اور سب سے بڑھ کر مہنگائی کی وجہ سے جب خود ان کو فائدہ بھی ہو رہا ہو تو پھر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی نچلے طبقے کے لوگوں کا سوچے۔اور نچلے طبقے کے وہ نمائیندے جو بعد میں وزیر بنتے ہیں کچھ عرصہ تو ان مسائل پر بات کرتےہیں مگر جلد ہی اپنی اوقات کے ساتھ ان مسائل سے بھرے علاقے اور ان کے باسیوں کو بھی بھلا دیتے ہیں۔ پھر طوطے کی طرح “سب کچھ ٹھیک ہے” رٹنا شروع کرتے ہیں۔ اگر کوئی ہے اس مملکت خداد میں جو غریبوں کے لیے درد رکھتا ہے تو اس کو چاہئے کہ شوکت ترین،مراد سید،حماد اظہر،شیریں مزاری،شاہ محمود قریشی سے عوام کا حال پوچھنے کے بجائے ہم سے پوچھے کہ موجودہ مہنگائی،بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے عوام کتنا پریشان ہے۔کیسے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑتے جارہے ہیں۔کیسے بھوک اور افلاس نے ڈھیرہ ڈال رکھا ہے اور حکومت کے بارے میں کیا راۓ رکھتے ہیں۔ورنہ ان سے ہی پوچھیں گے تو وہ یہی کہتے رہیں گے کہ تیل کی قیمت دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں اب بھی کم ہےاس لیے اور بھی بڑھانی چاہئے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔