پانی کا بحران آنے کی وارننگ…محمد شریف شکیب

کہا جارہا تھا کہ آنے والے عشروں میں قوموں کے درمیان پانی کی تقسیم پر خونریز جنگیں ہوں گی اور پانی کے لئے انسانی خون پانی کی طرح بہایاجائے گا۔ اس کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ عالمی ادارے کی تارہ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں مجموعی طور پر 2 ارب 30 کروڑ افراد پانی کے حصول میں دباؤ کا شکار ہیں۔عالمی سطح پر ہر دو منٹ میں 5 سال سے کم عمر کا بچہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماری سے مر جاتا ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بیشتر افریقی ملکوں میں عورتیں اور لڑکیاں سالانہ تقریباً 40 ارب گھنٹے پانی جمع کرنے میں صرف کرتی ہیں، پانی تک ناکافی رسائی والے لوگوں کی تعداد 2018 میں 3 ارب 60 کروڑ تھی 2050 تک یہ تعدادبڑھ کر 5 ارب تک پہنچ جائے گی۔ ڈبلیو ایم او، بین الاقوامی تنظیموں، ترقیاتی ایجنسیوں اور سائنسی اداروں کے اشتراک سے تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق پانی کے بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کوسنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے رپورٹ میں بھارت اور پاکستان کو 17 ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا جہاں پانی کی قلت انتہائی سنگین ہے۔آب و ہوا کی تبدیلی سے کچھ علاقوں میں زیادہ بارشیں تو ہوتی ہیں مگر بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی بارشوں اورسیلاب سے سالانہ بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پورے برصغیر میں زیادہ بارشوں سے نیپال، پاکستان اور بھارت میں بڑے پیمانے جانی و مالی نقصانات ہوئے لاکھوں افرادبے گھر اور سینکڑوں ہلاک ہوئے ہیں۔پانی کے بحران سے دوچار ہونے والے دیگر ممالک میں قطر، لبنان، اسرائیل، ایران، اردن، لیبیا، کویت، سعودی عرب، اریٹیریا، متحدہ عرب امارات، سان مارینو،عمان، ترکمانستان اور بحرین شامل ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2 ارب سے زیادہ لوگ پانی کے لئے ترستے ہیں انہیں پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں حاصل نہیں ہے۔قدرت نے ہمارے ملک خصوصاً ہمارے صوبے کو آبی ذخائر سے نہایت فیاضی سے نوازا ہے مگر آج تک انہیں ذخیرہ کرنے اور بنجر زمینوں کو سیراب اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے استعمال کرنے کی جامع منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ صوبے کے جنوبی اضلاع کے علاوہ ضم اضلاع اورملاکنڈڈویژن میں لاکھوں کروڑوں ایکڑ اراضی بنجر پڑی ہے۔ ساتھ ہی دریا بہتا ہے مگر اسے آبادکاری کے لئے بروئے کار لانے کا کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیاجاسکا۔ خیبرپختونخوا کے پہاڑوں اور گلیشئرز سے نکلنے والا پانی سمندر میں جاگرتا ہے اور صوبے آپس میں پانی کی تقسیم پر اکثر لڑتے رہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم کا فارمولہ طے پایاتھا مگر اس کی ہر سال خلاف ورزی ہوتی ہے۔ جب ہمیں پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو بھارت ہمارے حصے کا پانی ڈیموں میں بھردیتا ہے اور جب سیلابی صورتحال پیدا ہوجائے تودریاؤں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیتا ہے۔ موجودہ حکومت نے پہلی بار ماحول کو انسانوں کی دست برد سے بچانے کا پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت ملک میں بڑے پیمانے پر شجرکاری بھی ہورہی ہے۔ تاہم پانی خصوصاًبارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور اسے زراعت اور توانائی کی پیداوار میں اضافے کے لئے بروئے کار لانے کی اب تک کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ عالمی ادارے کی رپورٹ کے بعد ہمارے پالیسی سازوں کو اس اہم مسئلے پر توجہ دینی چاہئے۔کیونکہ موجودہ زرعی اراضی رہائشی مکانوں، سڑکوں، ہائی ویز کی تعمیر، دریاؤں کی کٹائی، سیم و تھور اور دیگر وجوہات کی بناء پر روزبروز کم ہورہی ہے۔ جس کی وجہ سے زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم سمیت تمام اجناس درآمد کرتے ہیں اگر پانی جیسے عظیم قدرتی تحفے کو سنبھالنے کی کوشش کی جائے تو ہم دوبارہ زرعی خودکفالت کی منزل کو پاسکتے ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔