آہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان..تحریر:اشتیاق احمد

ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج سے 85 سال قبل 1936 کو متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ان کا تعلق پشتون قبیلے اورکزئی سے تھا،ان کے بہن بھائی قیام پاکستان کے وقت ہی یہاں ہجرت کرکے منتقل ہو گئے اور وہ خود خاندان کے باقی افراد کے ہمراہ 1954 میں یہاں آکے سکونت اختیار کی۔
ابتدائی طور پرکراچی کے میٹروپولیٹن کارپوریشن میں ملازمت اختیار کرتے ہیں پھر اسکالر شپ کے تحت اعلٰی تعلیم کے حصول کیلئے ہالینڈ اور جرمنی سے میٹیریل ٹیکنالوجی میں ایم ایس سی اور بعد آزان بیلجیئم سے اسی شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
1972 میں جب انڈیا نے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کیلئے ایٹمی تجربات کئے تو ہالینڈ میں مقیم حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دل میں اپنے ملک کو نا قابل تسخیر ایٹمی قوت بنانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنی خدمات پیش کئے اور اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو خطوط ارسال کئے۔
اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو انھوں نے دو خطوط ارسال کئے جس کے بعد ان کو پاکستان بلوایا گیا اور اس حوالے سے ان کے ساتھ سیر حاصل گفتگو ہوئی اور انھوں نے باقاعدہ حکومت کو اپنی خدمات پیش کیں۔اس ملاقات کے بعد ڈاکٹر صاحب دو سال تک ہالینڈ میں مقیم رہے اور پھر 1976 میں اس منصوبے پر عملی کام کا آغاز ہوا اور انجینئرنگ ریسرچ اکیڈمی کی بنیاد رکھ دی گئی اور بعد آزاں اس ادارے کا نام اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ضیاء الحق نے تبدیل کرکے ان کے اپنے نام “ڈاکٹر عبدالقدیر خان ریسرچ لیبارٹریز؛رکھ دیا۔
اس بات پہ کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی اور حکومتی سطح پر اس کی سرپرستی کی اور بعد نیں آنے والے حکمرانوں نے اسے آگے بڑھایا اور اس بات کا اعتراف ڈاکٹر صاحب نے جابجا اپنی تقاریر میں کئے۔
پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا نام اور ان کی خدمات کلیدی اہمیت کے حامل ہیں اور طویل عرصے تک وہ اس کے سربراہ بھی رہے اور آخر کار وہ وقت بھی آیا جب پاکستان نے تمام تر بیرونی دباءو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے اور پہلا اسلامی ایٹمی قوت بننے کے لئے دھماکے کئے اور اپنی خودمختاری اور سالمیت پہ مہر ثبت کر دئے اور بلوچستان کے علاقے چاغی میں کامیاب جوہری تجربات کئے۔
ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات کی منتقلی پر ان پر مقدمات بھی کئے لیکن بعد آزاں ہالینڈ، بیلجیئم، جرمنی اور برطانیہ کےپروفیسرز پر مشتمل ٹیم نے ان الزامات کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہ دیا کہ یہ ساری معلومات کتابوں میں موجود ہیں اس لئے ڈاکٹر صاحب اس کیس سے باعزت بری ہو گئے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے اوپر لگے الزامات ملکی وقار، اور سالمیت کے لئے برداشت کئے اور ملکی خودمختاری پر آنچ نہیں آنے دی۔
ڈاکٹر صاحب مختلف سربراہان مملکت کےساتھ بطور مشیر خدمات انجام دئے جس میں سر فہرست سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 1989 میں ہلال امتیاز اور 1996 میں نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا ۔سال 1998 میں جوہری ہتھیاروں کے کامیاب تجربے کے بعد ،1999 میں ایک بار پھر نشان امتیاز سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر صاحب ایک سچے مسلمان ،محب وطن پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار مخلص پاکستانی بھی تھے اور خدمت کے کاموں میں بھی پیش پیش ریے۔ڈاکٹر صاحب نے 2012 میں ایک سیاسی جماعت :تحریک تحفظ پاکستان؛ کی بھی بنیاد رکھی لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے بعد میں اس کو تحلیل کر دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے ساری زندگی جہد مسلسل ، حب الوطنی اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار رہے تعلیم سے بھی محبت ان کے رگ رگ میں رچی بسی ہوئی تھی اور اپنے نام سے تعلیمی ادارے بھی قائم کئے جہاں ان کی وفات کے بعد بھی معماران قوم کو مستقبل کے درپیش چیلینجز سے نمٹنے کیلئے کوشان ہیں۔
پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے اور اس کی سالمیت کو نا قابل تسخیر بنانے والے مرد حر آخر کار 10 اکتوبر کو ہزاروں اشکبار آنکھوں کے سامنے مٹی تلے ہمیشہ کیلئے دفن ہو گئے اور اپنے پیچھے ساری قوم کے علاوہ (بیوہ ہنری قدیر خان اور دو بیٹیوں ) کو چھوڑ دئے اور خود رب کے سامنے حاضر ہو گئے اور انشاء اللّٰہ رب کے سامنے بھی سرخرو ٹھیریں گے۔
ڈاکٹر صاحب کی ساری زندگی خدمت اور اس مملکت خداداد کو نا قابل تسخیر بنانے کی جدوجہد سے عبارت ہے اور اپنے جانے کے بعد بھی اپنے چاہنے والوں کو یہ سبق دے گئے کہ حالات جیسے بھی ہوں حب الوطنی کے جذبے کو ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دینا ہے اوع مسلسل آگے بڑھنا ہے اور اس مملکت خداداد کو اس مقام تک پہنچانا ہے کہ دنیا رشک کرے اور وہ وقت انشاء اللّٰہ آکر رہے گا۔
ڈاکٹر صاحب نے اس ملک کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے جو جدوجہد اور سعی کی اللّٰہ رب العزت اس پر ان کروٹ کروٹ آخرت کے مراحل میں کامیابی عطا فرمائے اور اپنے انعام یافتہ بندوں میں ان شمار کرے ان کے درجات بلند کرے اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس عظیم مملکت کو اور بھی نا قابل تسخیر بنانے کی جدوجہد میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔