طالبان سے ڈومور کا تقاضا….محمد شریف شکیب

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے طالبان حکومت پرزوردیا ہے کہ خواتین کوکابینہ میں نمائندگی دینے اور لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق اپنے وعدے پورے کرے۔ عالمی انسانی حقوق اور قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا افغان حکومت پر لازم ہے۔ جب تک وعدے پورے نہیں ہوتے۔عالمی برادری کی طرف سے طالبان سے تقاضے جاری رہیں گے۔افغان معیشت میں خواتین کا نمایاں کردار ہے ان کی شرکت کے بغیر معیشت کی بحالی ناممکن ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ نے عالمی برادری سے بھی اپیل کی کہ افغانستان کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے مزید رقم عطیہ کریں کیونکہ افغانستان کے بیرون ملک اثاثے منجمد اور ترقیاتی امداد معطل ہے۔سیکرٹری جنرل کے بیان کے جواب میں افغان عبوری وزیر خارجہ امیر متقی نے کہا ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہش مند ہیں تاہم لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے لیے طالبان حکومت کوتھوڑی سی مہلت دی جائے۔ ہمیں اقتدار میں آئے ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے ہیں اور عالمی قوتیں ہم سے کارِ مملکت میں سدھار کی وہ توقعات وابستہ نہ کریں جو وہ مالی وسائل اور مضبوط سہاروں کے باوجود 20 سالہ اقتدار میں خود نہ کرسکے تھے۔15اگست کوافغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد تاحال کسی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ عالمی قوتوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقدامات بالخصوص خواتین کے حوالے سے رویے اس بات کا تعین کریں گے کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے یا نہیں۔افغانستان کے معروضی حقائق کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو وزیرخارجہ امیرمتقی کا موقف بالکل درست معلوم ہوتاہے۔ طالبان نے ایک ایسے ملک میں عنان اقتدار سنبھالا ہے جس کی معیشت مصنوعی سہاروں پر زندہ ہے۔ انفراسٹریکچر تباہ ہوچکا ہے۔سرکاری ادارے برائے نام ہیں۔ سیکورٹی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ شدت پسند تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔افغان نیشنل آرمی کا کوئی وجود باقی نہیں رہا۔ طالبان چند ہزار رضاکاروں کی مدد سے امور مملکت چلارہے ہیں۔ بیرون ملک افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کئے گئے ہیں جبکہ بیرونی امداد بھی نہیں مل رہی۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی کا جو خدشہ ظاہر کیاجارہا تھا۔ اس صورتحال کو بھی طالبان نے خوش اسلوبی سے کنٹرول کرلیا ہے۔ عالمی برادری کو افغانستان کی معاشی بحالی کے لئے فوری امداد فراہم کرنی چاہئے اور طالبان کو کم از کم چھ ماہ کی مہلت دینی چاہئے کہ وہ دوحہ امن معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔ طالبان نے اقتدار میں آتے ہی اعلان کیاتھا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم اور انہیں روزگارکی فراہمی کا وعدہ نبھانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں تاہم خواتین کی سیکورٹی کے لئے انہیں الگ انفراسٹریکچر بناکردینا چاہتے ہیں خواتین کے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں الگ ہوں گی اور وہاں خواتین اساتذہ ہی مقرر ہوں گی۔مالی وسائل کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے، حکومتی رٹ قائم کرنے اور ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ایک منظم اور تربیت یافتہ فوج کی ضرورت ہے یہ کام بھی مالی وسائل کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا۔دوحہ میں امریکہ کے ساتھ جاری مذاکرات میں بھی افغان وفد نے اپنے یہ مطالبات دہرائے ہیں۔ایک پرامن اور خوشحال افغانستان نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔ پنتالیس سال تک بیرونی جارحیت، اندرونی خلفشار اورخانہ جنگی کا شکار ملک میں امن کا قیام اولین ضرورت ہے تاکہ دہشت گرد دوبارہ افغانستان کو اپنی محفوظ پناہ گاہ نہ بناسکیں۔دنیا نے دیکھ لیا کہ افغانستان میں بدامنی اور انتشار نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے اس ملک کو محفوظ بنانا اور ترقی کی راہ پر واپس لانا بھی عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔اقوام عالم اپنی ذمہ داری پہلے پوری کریں اس کے بعد طالبان حکومت سے اپنے وعدے نبھانے کا تقاضا کریں تو زیادہ مناسب ہوگا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔