تلخ و شیریں ….ایک عہد تمام ہوا۔.. نثاراحمد

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق ریجنل ڈائریکٹرمقبول الہی بھی داغ ِ مفارقت دے گئے۔ یوں اہلِ چترال کا ایک محسن انسان ہی تہہ ِ خاک نہیں چلا گیا، ساتھ ساتھ ایک عہد بھی تمام ہوا۔ اس عہد ِ زریں کا آغاز مرحوم ڈائریکٹر نے چترال میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ریجنل آفس کی بنیاد رکھ کر کیا تھا۔ ریجنل آفس کی بنیاد رکھنے کا سیدھا سیدھا مطلب فاصلاتی نظام ِ تعلیم کی سہولت چترال کے چپے چپے تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھانا تھا۔ ماشاءاللہ ڈائریکٹر مرحوم نے بیڑا اُٹھانے کی ہمت و جرات پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ آپ کی انتھک عملی کوششوں سے یہ بیڑا پار بھی ہو گیا۔ اس زمہ داری سے آپ کے سرخ رو ہو کر نکلنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ اپنی ساٹھ سالہ مدّت ملازمت پوری کر کے بطورِ ریجنل ڈائریکٹر ریٹائرڈ ہو رہے تھے تو چترال کا کوئی کونا ایسا نہیں تھا جہاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈگری یافتگان موجود نہ ہوں۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ریجنل آفس کے قیام سے پہلے بی ایڈ، سی ٹی، ڈی ایم اور پی ٹی سی وغیرہ جیسی پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے چترال میں کوئی تدریسی مرکز موجود نہیں تھا۔ چنانچہ طلبا و طالبات ان پیشہ ورانہ ڈگریوں کے حصول کے لیے پُرمشقت سفر طے کر کے پشاور جاتے تھے۔ ان طلبا وطالبات کوکبھی لواری ٹاپ کی برفیلی چوٹی عبور کرنا ہوتا تھا تو کبھی افغانستان کا پرخطر اور تھکا دینے والا سفر جھیلنا پڑتا تھا۔ اوپر سے رہنے اور کھانے پینے کے اخراجات الگ بوجھ ہوتے تھے۔ یہ ڈائریکٹر صاحب کی برکت تھی کہ فاصلاتی نظام تعلیم کی وجہ سے نہ صرف ان مصائب و مشکلات سے خلاصی ملی بلکہ بڑی تعداد میں لوگوں کو گھر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے اور روزگار پانے کا موقع ملا۔

آج مرحوم کے جنازے میں اہل ِچترال کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، اور ان کے گھر تعزیت کیلئے آنے والوں کا تانتا بندھا دیکھ کر ذہن میں یہی خیال آ رہا تھا کہ جس شخص کے زیر ِ بار رہنے والے طلبا وطالبات چترال کے کوچے کوچے میں موجود ہوں اس کی وفات پر بروغل سے لے کر لواری پاس تک مختلف طبقہائے فکر اور شعبہائے زندگی والوں کا آنا کوئی اچھنبھا نہیں ہے۔ آپ یقیناً اصلی والے فخر چترال تھے۔ آج ایک صاحب بتا رہے تھے کہ بارہا ایسا ہوتا تھا کہ کوئی طالب علم داخلہ یا امتحانی فیس ادا کرنے کی استطاعت سے محروم ہوتا اور ڈائریکٹر مرحوم اپنی جیب سے اس کی فیس ادا کرتے۔

خاندانی ذرائع کے مطابق مرحوم کی عمر تقریباً سڑسٹھ برس تھی۔ آپ گزشتہ دو تین سالوں سے اسلام آباد میں ہی مقیم تھے۔ آخری دنوں میں بھی اسلام آباد ہی کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج رہے۔ ذکر و اذکار اور صوم و صلوٰۃ کے اس حد تک پابند تھے کہ مہربان الٰہی حنفی کے مطابق مرض ِ وفات میں بھی اشاروں کنایوں سے ذکرونماز کی ادائیگی کرتے رہے۔
سوگواروں میں بیانوے سالہ حاجی رحمت الٰہی (والد محترم) کے علاوہ تین بیٹے (ظہور الٰہی، فرمان الہٰی، احسان الہی) چھوڑے ہیں اور بیٹیاں بھی۔ علاوہ ازیں مرحوم کے تین دوست جیسے بھائی سوگواروں کی فہرست میں اوپر موجود ہیں۔ شمشیر الہیٰ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بطورِ ڈی ایس پی اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ محبوب الہیٰ بطورِ ایس ڈی ای او محکمہء تعلیم سے وابستہ ہیں۔ مہرباں الٰہی حنفی پبلک سروس کمیشن میں سپرٹنڈنٹ کی حیثیت سے اپنا فرضِ منصبی بھی نبھا رہے ہیں اور بطورِ شاعر و سماجی کارکن دیگر ادبی و سماجی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ خوش اخلاقی، ملنساری، تواضع اور خدمت خلق تینوں بھائیوں کا مشترکہ وصف ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے تمام لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔