محکمہ صحت میں درجہ چہارم ملازمین کی بھرتیوں کا تنازعہ اور ایم ایس ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال کا موقف,

چترال(چترال ایکسپریس)محکمہ چترال میں درجہ چہارم کے ملازمین کی خالی نشستوں پر بھرتیوں کی وجہ سے چترال میں ہونے والی سیاسی تناو سے ایک بار پھر یہ تاثر ابھرا ہے کہ شاید ہمارے نمائندگان اور سیاسی زعماء کی وقعت و لیڈرشپ کلاس فور بھرتیوں اور تبادلوں تک محدود ہے۔ تند و تیز سیاسی جملہ بازی کے ساتھ ایک دوسرے کو للکارنے کے علاوہ گھیراؤ کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ حسب روایت اس دفعہ بھی سب سے ذیادہ انگلیاں وزیر اعلیٰ کے مشیر وزیر زادہ کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمان اور ان کی جماعت کے کارکنان کے علاوہ دیگر حزب اختلاف کی جماعتیں اور حد یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر سے بھی وزیر زادہ اور ان کے قریبی رفقاء پر الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ایم ایس کی غیر موجودگی میں ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمان کی ڈپٹی ایم ایس کے ساتھ اتوار کے روز خاصی اچھی بحث بھی ہوئی ہیں اور ایم پی اے صاحب نے ایم ایس کی واپسی پر ہسپتال میں کارکنان سمیت احتجاج کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

   اس ساری صورتحال میں ایم ایس کا موقف جاننے کےلئے جب ایک آن لائن اخبار نے ایم ایس ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال ڈاکٹر شمیم سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ مجموعی طور پر 32 سیٹیں تھیں، اقلیتوں، خصوصی افراد اور ملازمین کے بچوں کے خصوصی کوٹہ نکال کر کل اٹھارہ سیٹیں بچتی تھیں جس پر سیکریٹری ہیلتھ کے نمائندہ، سینئر سیکشن آفیسر بجٹ خیبرپختونخوا کی موجودگی میں بھرتیوں کے ضابطہ اخلاق کو مدنظر رکھتے ہوئے شفاف طریقے سے جس کو سب سے ذیادہ حقدار سمجھا گیا اسی کو بھرتی کیا گیا ہے، اب جبکہ یہ بھرتیاں ہوئی ہیں تو ایم پی اے صاحب ڈی ایم ایس کو دھمکی دے کر نئی بھرتی شدہ ملازمین کے میڈیکل ٹیسٹ کرنے سے روک دیا جوکہ ایک منتخب نمائندے کی جانب سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ میں ان تمام کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ عدالت میں اپنا موقف پیش کریں مجھے غلط ثابت کرکے دیکھائے کہ بھرتیوں کے معاملے میں کونسے رولز کی خلاف ورزی ہوئی ہیں؟؟

   مختلف نمائندگان کی جانب سے اپنے من پسند افراد کی سفارش کے سوال پر ڈاکٹر شمیم نے بتایا کہ مولانا ہدایت الرحمان نے دس افراد کی فہرست ان کو بھجوا دیا جن میں سے موزوں سمجھتے ہوئے ہم نے ان کے ریکمنڈڈ ایک کو بھرتی کیا کیونکہ اٹھارہ سیٹوں پہ دس افراد کا اگر انہی کا بھرتی کریں تو وہ غریب عوام کدھر جائیں جن کی کوئی سفارش نہیں، جبکہ معاون خصوصی وزیر زادہ نے چار کی سفارش کی تھی جن میں سے ایک کو بھرتی کیا گیا جبکہ ایک کا تعلق کیلاش سے ہونے کی وجہ سے اقلیتوں کے خصوصی نشست پر خود بخود ہو گیا۔

   اب سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ کلاس فور یا کسی بھی قسم کی بھرتیوں میں سیاسی نمائندگان چاہے ایلیکٹڈ ہو یا سیلیکٹڈ کس قانون یا حق کے تحت اپنے منظور نظر افراد کو بھرتی کرنے کی سفارش کرتے ہیں؟؟

  جس غریب آدمی کی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی نہیں، کیا ان بھرتیوں میں اس کا کوئی حق نہیں؟؟

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔