سرحد پار پنپنے والے خطرات…محمد شریف شکیب

افغان طالبان نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ ممکنہ لاحق خطرات سے بچنے کے لئے افغانستان کی موجودہ حکومت کو تسلیم کیاجائے اور انسانی المیہ روکنے کے لئے افغانستان کی فوری مدد کی جائے۔ طالبان حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان کو تسلیم نہ کرنے پر کسی خطرے سے بچاؤ کی ذمے داری نہیں لے سکیں گے، ہم نے امریکا سے جنگ اسی وجہ سے کی کیونکہ انہوں نے ہمیں تسلیم نہیں کیا تھا۔ طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے سے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے جنوبی ایشیاء اور دنیا کے مسائل بڑھیں گے،بین الاقوامی قانون کی رو طالبان کو تسلیم کرنا تمام ممالک کے لئے دو طرفہ ضرورت میں آتا ہے۔ عالمی برادری کی تمام پیشگی شرائط پوری کر نے کے باوجود طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے سے عالمی امن کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔طالبان نے انسانی حقوق کی پاسداری، مذہبی اقلیتوں کو ان کے جائز حقوق دینے، خواتین کے تعلیمی ادارے کھولنے، سفارتی مشنوں کے تحفظ، شدت پسندی سے گریز اور دہشت گرد تنظیموں کی سرکوبی کی بین الاقوامی شرائط سے اتفاق کیا تھا۔ اور ان میں سے بیشتر شرائط پر عمل درآمد بھی کیا ہے۔ طالبان کے حمایتی پڑوسی ملکوں پاکستان، چین اور روس نے بھی تاحال طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی طالبان کے نامزد کردہ سفیر سہیل شاہین کو سفیر کا درجہ ابھی تک نہیں دیا۔ جس پر احتجاج کرتے ہوئے طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے تمام صوبوں پر ان کی حکومت ہے ایک قانونی اور جائز حکومت کو تسلیم کرنا اقوام عالم کی ذمہ داری بنتی ہے۔ جس کی بجا آوری میں دانستہ تاخیر خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ افغانستان کی تاریخ پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یہ لینڈ لاکڈ خطہ بڑی طاقتوں کی پنجہ آزمائی کا تجربہ گاہ رہا ہے۔ برصغیر پر حملہ آور بیرونی قوتوں نے بھی صدیوں تک اس خطے کو استعمال کیا۔ برطانوی راج کے دوران انگریزوں نے افغانستان کو اپنے تصرف میں لانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ سوویت یونین نے فوجی مداخلت کی۔افغانستان پرقبضے کی کوشش میں خود اس کا شیرازہ بکھرگیا۔امریکہ نے القاعدہ کی سرکوبی اور دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں افغانستان پر اپنے نیٹو اتحادیوں کے ہمراہ یلغار کی اور بیس سال تک یہاں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد انخلاء میں عافیت محسوس کی۔ سوویت فوج کے انخلاء کے بعد اگر امریکہ اور عالمی برادری افغانستان کی تعمیر نو، وہاں تعلیم عام کرنے، لوگوں کو روزگار کی فراہمی اورمعاشی، معاشرتی و سماجی شعبوں میں بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرتے تو یہ ملک خانہ جنگی کا شکار اور دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بنتا۔ اب بھی امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کو اپنے حال پر چھوڑ کر سنگین غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں۔چار کروڑافغان عوام امن و سکون سمیت سب کچھ کھو چکے ہیں اب ان کے پاس مزید کھونے کے لئے کچھ نہیں بچا ہے۔ قوموں کی برادری میں انہیں تنہا چھوڑا گیا تو یہ ملک دوبارہ دہشت گردوں کا گڑھ بن سکتا ہے جس سے نہ صرف پڑوسی ممالک بلکہ پوری دنیا کے امن کو خطرات لاحق ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ ایک طرف افغان عوام نان شبینہ کے محتاج ہوچکے ہیں عالمی برادری کی طرف سے امداد بھی بند ہے دوسری جانب امریکہ نے اپنے بینکوں میں افغان عوام کے اربوں ڈالرز کے اکاؤنٹس منجمد کردیئے ہیں۔مذہبی، تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے ہم آہنگی اور قریب ترین پڑوسی ہونے کے ناطے افغانستان میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کے فوری اور منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہوتے ہیں۔ سوویت یلغار کی وجہ سے ہجرت کرنے والے 30لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ پاکستان گذشتہ چالیس سالوں سے برداشت کر رہا ہے۔ اس لئے افغانستان کی موجودہ صورتحال پر پاکستان کا بار بار اظہار تشویش بجا ہے۔ اور عالمی برادری کو حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر امدادی کاروائیاں شروع کرنی چاہیئں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔