چترال کی بیٹی اور چترال یونیورسٹی”تحریر شہاب ثنا

میں ایک بیٹی ہوں۔ مسلمان گھرانے کی بیٹی ۔۔جس مذہب کو مانتی ہوں وہ دین فطرت ہے ایک مکمل ضابطہ حیات ۔۔۔یہ مخبر صادق ص کے ذریعے دنیا میں بھیجا گیا ۔۔اللہ کو ایک مانے والے اس کو مانتے ہیں اس کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں بتائی ہوئی جو تعلیمات ہیں ان کو مانا جائے جو احکامات ہیں ان پر عمل کیا جائے جو ہدایات ہیں ان کے مطابق زندگی گزاری جائے ۔اسی دین کے راہبر نے میرے بارے میں کہا کہ یہ رحمت ہے ۔۔میرے ابو کا عقیدہ ہے کہ بیٹا نعمت ہے اور بیٹی رحمت ۔۔میرے ابو کو بیٹے کی اتنی فکر نہیں جتنی میری ہے ۔۔میں ایک بیٹی ہوں میری ہر ہر حرکت ہر ہر فعل پر والدین کی نظر ہوتی ہے ان کو فکر ہے کہ مجھے کل کسی اور گھر جانا ہے وہاں میرے کردار کو تولا جاتا ہے حسن ،دولت اور تعلیم ثانوی چیزیں بن جاتی ہیں ۔اگر عورت کی تعلیم ،حسن اور دولت ہی سب کچھ ہوتا تو فلمی ستارے سب کو قبول ہوتے یہ لوگ یہ عجیب لوگ ان کا نام بھی اپنی بچیوں کے لیے تجویز نہیں کرتے ورنہ تو قطرینہ کیسا پیارا نام ہے ۔میں ایک بیٹی ہوں میرے باپ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں ہاں بھائی بھی۔۔۔۔ ماں تو میری مانیٹر ہے ۔اتنے پیار کے باوجود بھی میں بھائی کے سامنے اور باپ کے سامنے بات کرتی ہوئی ہچکچھاتی ہوں میرا سر جھک جاتا ہے اور چہرے پر ایک روشنی پھیل جاتی ہے ماہریں نفسیات اس کو “حیا” کہتے ہیں اگر میں نہ ہچکچھاوں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کروں تو پھر میرے چہرے پر یہ روشنی پیدا نہیں ہوتی گویا کہ حیا کی وہ روشنی بجھ گئی ہوتی ہے ۔۔اس کیفیت کے بارےمیں میرے پیارے رسول ص نے فرمایا ہے ۔۔۔اگر حیاء ختم ہو جائےتو انسان کی مرضی ہے جو کچھ کرنا چاہے ۔۔۔انسان بے لگام تو نہیں ہوتا ۔۔میرا جسم میری مرضی ۔۔۔یہ حیوانوں کا نعرہ ہے ۔میں بیٹی ہوں مجھے تعلیم چاہیے لیکن حیاء کی تعلیم۔۔۔ کردار اور اقدار کی تعلیم ۔میں لکھ پڑھ کر بھی بیٹی ہی رہوں ۔ میں بڑے آفیسر بن کے بھی عورت ہی رہوں ۔۔ایک بہن کی حیثیت سے سب کو قبول ہوجاوں ۔۔ایک بہو کی حیثیت سے اگر میرا رشتہ آیے تو کوئی میرے کردار پر سوال نہ اٹھایے ۔بے شک میں تعلیم حاصل کر رہی ہوں اس لیے کہ میرے ماں باپ کو مجھ پر اعتبار ہے کہ تہذیب اور دین کا وہ پہلا سبق جسے مجھے پڑھایا گیا ہے اس میں فرق نہ آیے ۔میرے چترال میں یونیورسٹی بنی تو میرے والدیں کو اطمنان ہوا کہ دانشکدہ گھر آنگن میں آگیا اس میں تعلیم یعنی لکھنے پڑھنے کے ہنر کے ساتھ “چترالیت “بھی پنپ جایے گی ۔چترال کی بیٹی دنیا کے لیےمثال بن جایے گی لیکن وہاں پہ تو ڈولک کی تھاپ ہے رقص و سرور ۔۔۔رقص تو بدن کی موسیقی ہے۔بدن کو تھرکانا پڑتا ہے بیٹی کی شان ہی یہ ہے کہ وہ اپنے جسم کا خیال رکھے اسی کے جسم کو پردہ کہا گیا ہے ۔اور جس مسلمان کےگھر میں اس کی پیدایش ہوئی وہاں پر پہلے سبق میں اس کو بتایا گیا کہ پردے کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے ۔یونیورسٹی میں تو محرم نا محرم کا بھی مسلہ آتا ہے لیکن میرے اساتذہ بھی مسلمان ہیں اور بھائی بھی ۔۔۔ان کو بھی ماننا پڑے گا کہ نامحرم کو سامنے بیٹھا کے گانا داد دینا تالیاں بجانا اور داد وصول کرنا تو نہ تعلیم ہوئی نہ تہذیب نہ ثقافت ۔ یہ تو بیٹی کے ماتھے پر داغ ہوا ۔یہ دانشکدہ ایک دنیا ہوتی ہے ۔یہاں پر تو دنیایں پنپتی ہیں۔ میں ایک بیٹی ہوں مجھے ماں کی گود میں تعلیم کا جو خواب دیکھایا گیا تھا وہ خواب تو یہاں آکر چکنا چور ہوگیا ۔ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ۔۔یہ بیٹی جو ننگے سر ہے کس تعلیم ، کس تہذیب اور کس اسلام کی بات کر رہی ہے ۔کیا موسیقی سے آپس کی رقابتیں ختم ہو جاتی ہیں ۔ کیا ان دانش کدوں میں اسلام کونعوذو بااللہ ٹنشن کہا جاتا ہے اور اس کے احکامات کے خلاف کام کرکے ٹنشن ریلیز کیا جاتا یے ۔مجھے تو ایسے دانشکدے کا کوئی خواب نہیں نہ ایسی تعلیم کی آرزو ہے ۔چترال کی بیٹیو! یاد رکھنا تم اپنی شناخت کھو دوگی ۔یہاں پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کا حصہ مت بن جاو۔ہمیں رقص و موسیقی کی تعلیم نہیں چاہیے ہمیں اپنے دین کی پاسداری کرنی ہے اس عارضی زندگی میں جس دین کو مانتے ہیں اس کی قدر کرنی ہے ۔میری اپنے ان سروں سے بھی گزارش ہے کہ کسی غلط فہمی کا شکار مت ہونا زمانہ تجھے معاف نہیں کرے گا ۔ہمیں چترال یونیورسٹی پر فخر تھا اب افسوس ہے اور ان فیس بکی تبصرہ نگاروں پر بھی جو اس آزادی کا دفاع کر رہے ہیں اور تنقید کرنے والوں کو برا بھلا کہتے ہیں ۔ ۔۔ آیندہ اگر ہمیں تعلیم دینی ہے تو دین اسلام ،تہذیب اور چترالیت کے حدود کے اندر رہ کر ہمیں تعلیم دو ۔۔۔فحاشی اور عریانی نہ کبھی تعلیم تھی اور نہ ہے ۔۔
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت ۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔