وزیراعلیٰ محمود خان کے زیر صدارت پناہ گاہوں سے متعلق اجلاس کاانعقاد

پشاور(چترال ایکسپریس)معاشرے کے کمزور اور نادار طبقوں خصوصاً مسافروں کو قیام و طعام کی مفت سہولیات کی فراہمی کے لئے موجودہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان کے وژن کے تحت صوبے میں پاکستان بیت المال اور محکمہ سماجی بہبود خیبرپختونخوا کے باہمی اشتراک سے اس وقت مختلف اضلاع میں سات پناہ گاہیں فعال ہیں جن میں پشاور مردان، ایبٹ آباد، ڈی آئی خان، کوہاٹ ،سوات اور بنوں میں قائم پناہ گاہیں شامل ہیں جبکہ پشاور میں دوسرا پناہ گاہ بہت جلد فعال کیا جائے گا۔ ان پناہ گاہوں میں مجموعی طور پر 800 افراد کے لئے رات کے قیام کی گنجائش موجود ہے جبکہ روزانہ 1800 سے زائد مستحق افراد کو مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
یہ بات گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی زیر صدارت پناہ گاہوں سے متعلق منعقدہ ایک اجلاس میں بتائی گئی۔ چیف سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز، ایڈیشنل چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ، سیکرٹری سوشل ویلفیئر سید ذوالفقار علی شاہ، ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر حبیب آفریدی اور دیگر حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ مذکورہ پناہ گاہوں کے علاوہ صوبائی حکومت کے اپنے وسائل سے بھی صوبے کے مختلف اضلاع میں دس پناہ گاہیں فعال ہیں جن میں پشاور ، چارسدہ ، مردان، ایبٹ آباد، بنوں، صوابی، مانسہرہ، سوات، کوہاٹ اور کرک شامل ہیںجبکہ ڈی آئی خان میں بہت جلد ایک پناہ گاہ کو فعال کیا جائے گا۔ صوبائی حکومت کے تحت چلنے والے ان پناہ گاہوں میں مجموعی طور پر ساڑھے چار سو سے زائد افراد کے لئے رات کے قیام کی گنجائش موجود ہے۔ اجلاس میں ان پناہ گاہوں کے انتظام و انصرام اور وہاں پر سہولیات کی فراہمی کو مزید بہتر بنانے اور ان کے دائرے کو توسیع دینے کے سلسلے میں مختلف امور پر تفصیلی غور و حوض کیا گیا اور متعدد فیصلے کئے گئے۔وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو سردیوں کی آمد سے پہلے پہلے صوبے میں تمام پناہ گاہوں کو مکمل طور پر فعال بنانے اور وہاں پر قیام و طعام کی تمام درکار سہولیات کی فراہمی کے لئے مناسب اقدامات اٹھانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کو ہر لحاظ سے یقینی بنایا جائے کہ ان سردیوں میں کوئی شخص سڑک پر نہ سوئے۔ وزیراعلیٰ نے مستحق افراد کو مفت کھانے کی فراہمی کے لئے صوبائی دارالحکومت پشاور میں شروع کردہ میل آن وہیلز پروگرام دیگر اضلاع تک توسیع دینے کے متعلقہ حکام کو ہوم ورک مکمل کرکے تجاویز منظوری کے لئے پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔