چترال انفارمیشن اینڈ ہیلپ گروپ…شمس الرحمن تاجک

دو مہینے پہلے جدید دور کے ایک قدیم ”فقیر“ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ حالانکہ ہمیں فقیر لوگ بالکل نہیں پسند۔مگر جس معاشرے کا ہم حصہ ہیں اس میں مستند بات بازاروں میں گھومنے والے اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کے پاس انہی کا حصہ دکھائی دینے والے مجذوب افراد کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اصل میں وہ پہنچے ہوئے لوگ ہیں۔اس لئے ان سے ڈرنا چاہئے اور میں واقعتا ایسے لوگوں سے ڈرتا ہوں۔ انسانی ہمدردی کے بجائے ایسے لوگوں سے رشتہ صرف خوف کی وجہ سے رکھنے کا عادی ہوں مبادا وہ کوئی بددعا نہ دیں اور ہماری پوری زندگی برباد نہ ہوجائے۔مگر ہم جس فقیر سے ملنے گئے تھے وہ کسی ڈر اور خوف کے بجائے مقابلے اور برابری کی بنیاد پر گئے تھے۔ چیلنج تھا کہ آپ ہوں گے بہت ہی قدیم صحافی۔ ہم نے بھی بال دھوپ میں سفید نہیں کئے۔

 ملاقات کا سبب پوچھا ان کا کہنا تھا کہ وہ”فقراء“کا ایک باقاعدہ گینگ تشکیل دے چکے ہیں۔ گینگ میں شمولیت کی دعوت دینی تھی اس لئے بلائے گئے تھے ہم۔ جب ہم نے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی تو ہمیں گینگ کے فقراء کی تفصیلات فراہم کی گئیں۔قدیم فقیر کی طرح گینگ اپنے اپنے شعبے میں یدطولی رکھنے والے افراد پر مشتمل تھا ہمیں یقین نہیں آیا کہ چترال میں ایسا بھی کوئی گروپ، فورم اور فلاحی ادارہ ہوسکتا ہے جس میں زندگی کے تمام شعبوں، ہر مکتبہ فکر اور تمام سیاسی نظریوں کے لوگ صرف فلاح انسانیت کے لئے شامل ہوچکے ہیں۔ جو لینے کے بجائے دینے کے تصور اور جذبے دونوں سے مالامال ہیں۔گروپ کے تمام مخیر حضرات اور ممبران اس ایک نکتے پر اتفاق کرچکے ہیں کہ انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔کسی بھی نیک کام میں حصہ داری کو کسی پر احسان کے بجائے اپنی خوش قسمتی سمجھیں گے۔ اپنی بساط سے باہر ہو کر اگر کسی کی مدد کرنی ہو تو غریب اور مستحق کے لئے کسی بھی مخیر شخص کے سامنے جھولی پھیلانے سے گریز نہیں کریں گے۔ نیک کام کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے۔ پلیٹ فارم صرف ایک بنیادی اصول”فلاح انسانیت سب سے پہلے“ کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔ اس نیک گینگ کو چترال انفارمیشن اینڈ ہیلپ گروپ کا نام دیا گیا ہے۔جو کہ اب تک ہزاروں مستحقین کی ان کی ضروریات کے حساب سے مدد کرچکا ہے اور سلسلہ جاری ہے۔

 اس گروپ کے ممبران دنیا بھر میں خاص طور پر پاکستان کے تمام شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ ناردرن ایریا اوچترال کے ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو واقعی میں مجبور و بے بس ہیں۔ مدد کرنے کا ان کا طریقہ کار بھی رائج الوقت تمام طریقوں سے بہترین ہم نے پایا ہے۔ گروپ کے واٹس ایپ گروپ میں کسی بھی ممبر کی جانب سے ایک مسیج کا آنا ہوتا ہے کہ چترال کے کسی گاؤں میں یا ملک کے کسی بھی شہر میں ایک مستحق شخص موجود ہے۔ مستحق شخص کے بارے میں تفصیلات فراہم کئے جاتے ہیں۔ اس گاؤں یا شہر کے قریب ترین موجود گروپ کے ممبران کو ذمہ داریاں دی جاتی ہیں کہ ہم ان کی کیا اور کتنی مدد کرسکتے ہیں۔تفصیلات بھی گھنٹوں میں حاصل کی جاتی ہیں عام طور پرکیس گروپ تک لانے والا ممبر تمام تفصیلات پہلے حاصل کرچکا ہوتا ہے۔ کام کاآغاز ہوتا ہے۔ مخیر حضرات چونکہ اس کا گروپ پہلے سے ہی حصہ ہیں اس لئے اکثر و بیشتر کوئی ڈونر ڈھونڈھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر ضرورت پڑے تو دنوں کاکام گھنٹوں میں کرنے کا فن گروپ کے سرکردہ شخصیات اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ گروپ میں تمام تر لوگ رضاکارنہ طور پر شامل ہیں،کام بھی رضاکارانہ طور پر ہی کرتے ہیں۔

سب سے اچھی بات یہی ہے کہ اس گروپ کے ممبران جس کسی کی مدد کرتے ہیں ان میں سے اکثر کو پتہ نہیں ہوتا کہ ان کی مدد کر کون رہا ہے۔ سالوں سے کئی خاندانوں کو راشن فراہم کرنے والے گروپ کے مخیر حضرات یہ تک بتانے کو تیار نہیں کہ ہم نے کچھ کیا ہے جوکہ بنیادی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اور واقعی میں فلاح کا کام ہے۔ ورنہ اس زمانے میں سو روپے کی امداد دیتے ہوئے ہزاروں تصویریں روز سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہوتی ہیں۔ چترال انفارمیشن اینڈ ہیلپ گروپ کے ممبران نے کم از کم لوگوں کی عزت نفس سے کھیلنے کے بجائے امداد کا ایک بہترین طریقہ شروع کیا ہے۔یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہئے بلکہ جس کسی سے ہوسکے اور جتنا ہوسکے چترال انفارمیشن اینڈ ہیلپ گروپ کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

گروپ کی دوسری اچھی بات جس پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ مساوات و برابری کا رویہ ہے۔ چترال کے تقریبا تمام بڑے نام چاہے وہ سیاسی ہوں، مذہبی ہوں،صحافی ہوں یا پھر انتظامی افسران۔ کسی کے لئے کوئی الگ اسٹیٹس موجود نہیں۔ واقعی میں سب برابر ہیں۔ جو قوانین وضح کئے گئے ہیں اس کے حساب سے گروپ میں ذاتی تشہیر یا نظریے کی تشہیر کی اجازت نہیں دی جاتی۔ نہ ہی آپ گروپ یا گروپ سے باہر کسی بھی شخصیت یا ادارے کی دل آزاری یا تضحیک کا رویہ اپنا سکتے ہیں۔ گرجتے برستے لوگ اس فورم کی بدولت آپس میں نرمی اور دوستی کا رشتہ اپنا چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم چترال انفارمیشن اینڈ ہیلپ گروپ کے کام کرنیکے انداز اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رویہ پورے معاشرے کو سکھاسکیں تاکہ چترال واقعی میں امن کا، دوستی کا اور تہذیب یافتہ ہونے کااعزاز حاصل کرسکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔