جدید چترالی عورت کا مسئلہ …تحریر: کریم اللہ 

چترال کا قدیمی نام قشقار تھا اسی نسبت سے یہاں یہ بات مشہور ہے کہ “قشقار عورت آباد” ۔ یعنی چترال میں گھر کے آباد ہونے یا بربادی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ عمومی خیال یہ ہے کہ شاید چترال کے لوگ زمانہ قدیم سے پدری سری نظام کے سخت گیروں کےحامل رہے ہیں مگر اس میں کلی حقیقت نہیں، زمانہ قدیم سے یہاں کے خواتین بہت حد تک خود مختار رہی ہے البتہ اونچ نیچ کسی بھی معاشرے میں ہوتی ہے یہی کچھ یہاں بھی ہوا ہوگا ۔ آج کا نیو لبرل کلاس نے پدر شاہی کا نعرہ لگا کے میدان میں کود پڑے ہیں اور جس طرح فیمینزم کارڈ کا استعمال کرکے خواتین کے حقوق کی باتین ہورہی ہے یہ سارا نعرہ صرف اور صرف یہاں کے سماجی بندھنوں کو ختم کرنے سوا اور کچھ نہیں ۔ آج کا عور ت ماضی کے عورت کے مقابلے میں کتنا آزاد اور خود اختیار ہے اس کا مطالعہ گہرائی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ محض نعرہ لگانے سے نہیں بلکہ یہاں کے سماج پر گہرائی و عرق ریزی سے تحقیق کرنے پر ہی سامنے آسکتا ہے ۔

اب آتے ہیں قشقار عورت آباد جیسے محاورے کی جانب ، تو ہمارےہاں آج بھی یہ بات مشہور ہے کہ جس گھر میں خاتون محنتی ہو، جو ہنر مند و سلیقہ دار ہو وہی گھرانہ ترقی کرسکتا ہے ۔ اس کے بجائے جس گھر میں عورت نکما ، نالائق اورمحض باتونی ہو تو اس گھر کے معاشی حالت کی بہتری کا چانس بہت کم ہوتا ہے ۔ کیونکہ بہرحال چترال میں زندگی گزارنے کے لئے مرد و خواتین کو مل کے سخت محنت کرنی ہوتی ہے تبھی جاکے کھانے کے لئے روٹی مل سکتی ہے وگرنہ غربت و افلاس کا مقابلہ نہ پہلے کر سکتے تھے اور نہ اب ممکن ہے ۔ زمانہ قدیم میں چترال کے اندر چونکہ محنت و مشقت کا رواج تھا تو اسی تناظر میں کاموں کی تقسیم کی گئی تھی مثلا بکریاں چرانا، پہاڑوں سے کندھوں میں لکڑیاں لاد کے لانا، زمینات میں زیادہ تر کام کاج کی ذمہ داری مرد وں کی ہوتی تھی جبکہ عورتیں گھریلو کام کاج کرتی تھی ۔ جن گھروں میں خواتین ہنر مند ہوتی وہ بھیڑ کے اون سے اپنے ، اپنے شوہر و بال بچوں کے لئے جرابین ، داستانے، بنیان، شوقہ و کمبل وغیرہ بناتے اسی طرح مرد محنتی ہو تو وقت پہ لکڑی لانے ، زیادہ بکریاں پالتے اور کاشت کاری کے کام وقت پہ سرانجام دیتے یوں ایسے گھرانے مستحکم ہوجاتے ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی ضروریات و ترجیحات تبدیل ہوتی گئی لوگ آمدن کے لئے مختلف ذرائع تلاش کرنے لگے اور جدید تعلیم کے بعد نوجوان نسل ملازمتوں کی جانب راغب ہوئے اور یوں پرانا سسٹم ختم ہوگیا ۔ اس کے علاوہ مختلف این جی اوز نے یہاں کے لوگوں کو پرانے طور طریقوں سے نکالنے اور یہاں کے مقامی معیشت کے ذرائع جیسا کہ گلہ بانی ، کاشتکاری وغیرہ کو ڈائریکٹلی یا انڈائریکٹی گھٹیا قرار دے کر لوگوں کو بد ظن کرتے رہے جس کے باعث نوجوانوں کی اکثریت نے ان کاموں کو خیر باد کہہ دیا۔

اب حالات یہ ہے کہ مارکیٹ میں ملازمتوں کے مواقع ختم ہوتے جارہے ہیں جبکہ لوکل اکانومی کو گھٹیا قرار دے کر نئی نسل کو اس سے بدظن کیا گیا ۔ آج کوئی پڑھی لکھی لڑکی بھیڑ کے اون سے دھاگہ بنا کے اپنے لئے چغہ نہیں بنا سکتی اور نہ ہی تعلیم خاتون چترالی روایتی ٹوپی سی سکتی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ کوئی بھی جدید خاتون چترالی لوکل ڈش نہیں بنا سکتی جبکہ اس کے مقابلے میں بریانی یا پھر میکرونی بنانے کے ماہر ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم مارکیٹ پر زیادہ انحصار کرنے پہ مجبور ہوئے ۔

 نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ملازمتوں کے مواقع ختم ہوتے جارہے ہیں جبکہ پڑھی لکھی بے ہنر خواتین گھروں میں بیٹھ کے ٹینشن میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے یا پھر مارکیٹ میں انتہائی چیپ لیبر کے طور پہ کام کررہی ہے مگر اپنے اسکلز کو بہتر بناکے گھر میں بیٹھ کے کام کرنے کو وہ گھٹیا سمجھتی ہے یوں ہمارا معاشرہ انتہائی تیزی کے ساتھ تباہی کی جانب گامز ن ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ کل کی ان پڑھ جاہل ( بقول جدید تعلیم یافتہ طبقے کے ) عورت آج کے نام نہاد جدید تعلیم یافتہ عورت کے مقابلے میں زیادہ محنتی و خود مختار تھی ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔