عقیدت کے پھول….تحریر:اقبال حیات اف برغذی

سب کو فنا ہونا ہے سوائے رب کائنات کی ذات بابرکات کے ۔یہی وہ حقیقت ہے جس کے چترال کے عظیم فرزند ممتاز دینی شخصیت حضرت قاری شبیر احمد نقشبندی بھی آئینہ دار ہوئے۔ ستر سالوں کے لگ بھگ زندگی کی بہاریں دیکھنے کے بعد خزان رسیدہ پھول کی مانند مٹی سے پیوست ہوگئے۔ قاری مرحوم کی سرزمین چترال کو اعمال صالحہ کی تجلیات سے منور کرنے والے چاند کے غروب ہونے سے تعبیر کیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ دوست احباب،خویش،واقارب الغرض چترال کا ہر فردوبشر صدمے سے دوچار ہے آپ کی وفات کو چترال کے لئے ایک عظیم المیہ قرار دیا جارہا ہے۔اور دینی امور کی مناسب سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پورا ہونا محال ہے۔

شاہی  جامع مسجد  میں داخل ہوتے ہی اپنی قیام گاہ کے باہر دروازے سے متصل تختے پر جلوہ افروز قاری صاحب کے نورانی چہرے پر نظر پڑتے ہی خدایا دآتاتھا۔ اور شاہی مسجد پر وقار نظرآتا تھا۔ مسجد میں داخل ہونے والے ہر نمازی کے سلام کا جواب خندہ پیشانی کے ساتھ خوبصورت انداز میں دیتا تھا۔ ان سے ہاتھ ملانے سے دل کو سرورحاصل ہوتا تھا۔اور اپنی قیام گاہ سے امامت کےلئے مسجد کی طرف چلنے کا انداز جہاں لطف وسرور کا حامل ہوتا تھا۔ وہاں نماز کے دوران قرآنی آیات کی تلاوت کرتے ہوئے ان کی آواز کی حلاوت اور لذت سے جی نہیں بھرتا تھا۔ ایک بہت بڑے مذہبی ادارے سے وابستگی کے باوجود قاری مرحوم کی طبیعت میں بذلہ سنجی کی صفت بھی پائی جاتی تھی۔ باتوں باتوں میں لطیف پیرائے میں ایسے چسکے لگاتے کہ مغموم انسان کے دل کی کیفیت بھی بدل جاتی اور مسکرانے پر مجبور ہوتا۔ان کا نورانی چہرہ ہر وقت گلاب کے پھول کی مانند کھلا رہتا تھا۔ اداسی اور مغمومیت کے آثار دیکھنے کو نہ ملتے۔

ان کے قریبی حلقوں کی طرف سے بتایا جاتا ہے کہ قاری صاحب کچھ عرصہ پہلے صحت مندی کی حالت میں مسجد کے اپنے رفقاء میں سے چند ایک کو اپنی رہائش گاہ میں بلاکر موت کی حقانیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی وفات کے بعد ورثاء میں تقسیم کرنے کے لئے اپنے ترکہ کی نشان دہی کی تھی۔ جو یقیناً ان کی رفعت شان کا آئینہ دار ہے ” کیون نہ ہو” کہ اللہ رب العزت جب اپنے بندے سے محبت کرتے ہیں تو فرشتوں کو بھی ان سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہیں اور یہ سلسلہ زمین پر بسنے والے انسانوں تک پہنچتا ہے جیسے ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کے مصداق اشکبار آنکھوں کے ساتھ آہ بھرتے ہوئے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے انسانوں کا جم غفیر آپ کے کردار کی عظمت اور نیک سیرتی کا غماز اور منہ بولتا ثبوت تھا بحرحال موت ایک ایسا راستہ ہے جس سے ہم سب کو گزرنا ہے البتہ   …. بارے  دنیا  میں  رہو  غمزہ  یا  شاد  رہو

                                         ایسا کچھ کرکے چلو یاں کے بہت  یاد  رہو

کے بموجب ایسی موت کے لئے دعا کرنا چاہیے جو بندگان خدا کی محبت کی خوشبو سے معطر ہو۔اللہ رب العزت قاری شبیر صاحب مرحوم کو اپنی جوار رحمت سے نوازے اور ان کے پسماندگان کو اس ناقابل تلافی نقصان کو برداشت کرنے کا حوصلہ عطافرمائے۔آمین

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔