ثقافت کا پرزہ

ببانگ دھل۔۔۔۔زار مراد چترالی

مسٹر بین ایک مشہور برطانوی مزاحیہ فنکارہے جس کا اصل نام روون اٹکینسن ہے۔اس کی مزاحیہ اداکاری پوری دنیا میں اپنی ایک الگ مثال رکھتی ہے۔زیادہ تر لوگ اسے اس کے مسٹر بین نامی مشہور زمانہ کردار سے جانتے ہیں۔جس میں وہ عموما بچے کا ایک بہت ہی منفرد کردار ادا کرتے ہیں۔ انکی ایک ہنسی سے بھرپور وڈیو مجھے دیکھنے کو ملی جس میں وہ اپنی گاڑی سڑک پر پارک کے کسی شاپنگ سنٹر میں جاتا ہے۔جوں ہی وہ اندر جاتا ہے پیچھے سے ایک ٹینک اس کی گاڑی کو روندتی ہوئی نکل جاتی ہے۔وہ شدید اضطراب کے عالم میں گاڑی کا سارا ملبہ دیکھ لیتا ہے مگر اسے کوئی ایک بھی پرزہ سالم نہیں ملتا۔ اتنے میں اسے گاڑی کے دروازے کی کنڈی نظر آتی ہے جو اس سانحے میں بچ جاتی ہے۔مسٹر بین اس کنڈی کو خوشی کے ساتھ اٹھاتا ہے،اس کو دیکھ دیکھ کر ہنستا ہے اور گھر کی طرف پیدل چل دیتا ہے۔ہمیں بھی ایک صحیح سالم ثقافت ملی تھی۔جس میں امانت داری،خوش اسلوبی،خوش اخلاقی،غریب پروری،بھائی چارہ،انسان دوستی،خلق خدا سے ہمدردی،نرم مزاجی،مہمان نوازی،سخاوت،ایک دوسرے کی دکھ درد میں مدد،غمگساری،علم دوستی،شاعری،کھیل،سیرو تفریح،خوراک اور پوشاک شامل تھیں۔ثقافت نام کی یہ گاڑی جب ہمارے پاس آئی تو ہم نے اسے فروغ دینے کے لیے سڑک پر لے آئی۔ہمیں یہ مقید لگا اور ہم نے اسے دنیا کے سامنے آزاد کرنے کی کوشش کی۔ہمیں لگا کہ ہم بہت اچھے ڈرائیور ہیں ہم اسے چلائیں گے،بلکہ دوڑائیں گے۔

دوسری ثقافتوں کے ساتھ دوڑ لگانے کی جستجو پیدا ہوئی۔اسی دوڑ اور پھر ہماری اناڑی پن نے اسے مختلف قسم اور نام کی ٹینکوں کے نیچے لاناشروع کیا اور اس کے پرخچے بھی اڑنا شروع ہو گئے۔ایک ایک کر کے اس کے پرزے گنواتے رہے اور آخر میں ہمارے پاس بھی صرف ایک ہی پرزہ باقی رہ گیا۔جسے ہم موسیقی کہتے ہیں۔اور اسی ایک پرزے کو ثقافت کا نام دے کر ہر جگہ،ہر گھر یہاں تک کہ ہر سکول ہر کالج اور ہر یونیورسٹی میں جہاں کہیں بھی موقع ملتا ہے ناچتے ہیں۔اس سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ موسیقی بھی ہماری ثقافت کا حصہ ہے اس کو زندہ رکھنا چاہئے مگر یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ ثقافت کا یہ پرزہ مردوں کے لیے مخصوص ہے۔چترالی تاریخ کھنگال کر دیکھ لے موسیقی کی مخلوط محفل کہیں نہیں ملے گی۔جس میں مرد ناچ رہے ہو اور خواتین تالیاں بجارہی ہو۔البتہ خواتین کی چھپ کر یا دور کسی جگہ بیٹھ کر موسیقی سے محظوظ ہونے کی روایت کچھ علاقوں میں موجود ہے۔ہاں البتہ خواتین نےشاعری کی ہیں۔قدیم زمانے کی بھی، کسی خاص مسلے،کسی پیارے کی جدائی یا کسی خوشی کے موقع پر خواتین کی شاعری آج بھی موجود ہیں جنہیں آج بھی گایا اور گنگنایا جاتا ہے۔چترالی ثقافت میں کہیں بھی کسی خاتون کا اسٹیج پر آکر ڈانس،گانا یا پھر مردوں کے ساتھ بیٹھ کر محفل جمانے کی نہ تو تاریخ میں دور دور تک کوئی نشانات ہیں اور نہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔اگر کوئی جدت پسند ہماری ثقافت میں جدت کا خواہاں ہے اور چاہتا ہے کہ خواتین بھی اس شعبے میں آگے آئیں تو ہم اسے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں لیکن صرف ایک شرط پہ کہ وہ یہ جدت اپنی اور اپنے خاندان کی حد تک رکھیں،پورے چترال پر مسلط نہ کرے۔رہی بات باقی اجزا کی تو وہ کیوں ہماری کلچر سے غائب ہو گئی ہیں۔کہاں گئی وہ سخاوت جس میں میلوں پیدل سفر کر کے لائی گئی خوراک پورے گاؤں میں بانٹ دی جاتی تھی۔

کسی ایک شخص کی بیماری پورے علاقے کے لیے تناؤ کا باعث ہوتی تھی اور اس کی صحت یابی کے لیے دعاؤں کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے ٹوٹکے دور دور سے منگا کر آزمائے جاتے تھے۔تعلیم کے لیے تو افغانستان اور ہندوستان سمیت دوردراز ممالک کا سفر کرنا بھی ہماری ہی ثقافت میں شامل ہے۔کیوں ہمارے بچے آج دروازے پر دستیاب تعلیم بھی حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں۔لباس کو توجدت کا نام دے کر تبدیل کر دیا گیا شلوار قمیض کی جگہ پینٹ شرٹس نے لے لی اور بڑے فخر سے ہم نے اسے اپنی کلچر کا حصہ بھی بنایا مگر مقابلے کے اس دور میں جدید تعلیم حاصل کرنے سے گریزاں ہیں۔کیا بڑوں کی عزت کرنا ہماری کلچر کا حصہ نہیں تھا۔وہ کہاں گئی۔ معلم اور علم کی قدر کیوں ختم ہو گئی۔اسی لیے کہ ہم نے کلچر کے نام پہ ناچ گانے کوفروغ دیا۔جب علمگاہ میں معلم اور طالب علم مل کر ناچنا شروع کردے توعلم اور معلم کی توقیر کے ساتھ علم بھی خدا حافظ کہہ ہی دیتا ہے۔یہی نہیں اگر خداناخواستہ ہماری حالت یہی رہی تو ہماری نئی نسل کلچر کی تعریف ناچنا،ناچنا اور بس ناچنا ہی سمجھے گی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔