“تنگ آمد بہ جنگ آمد” “از قلم شاہ نادر یمگی”

گرم چشمہ کی تاریخ کا پہلا دھرنا ستمبر کی کھپا دینے والی سردی میں پولو گراؤنڈ گرم چشمہ میں دوسرے دن بھی جاری ہے۔کہانی کچھ یوں ہے کہ علاقے میں قیادت کی کمزوری ، سرکار اور سرکاری اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے جغرافیائی اہمیت رکھنے والا لٹکوہ انجگان کا یہ اہم علاقہ پتھر کے دور کا کھنڈر بنا ہوا ہے۔اگر چہ یہ علاقہ قدرتی حسن اور وسائل سے ملا مال ہے لیکن علاقے کے نام نہاد قائدین کی نا اہلی کی وجہ سے یا تو وسائل سے غیر ملکی افرادفائدہ اٹھارہے ہیں یا پھر قدرت کے دئیے ہوئے انمول خزانے قبروں میں پڑے ہڈیوں کی طرح زیر ِ کوہ و زمین دفن ہیں اور ہمارے قومی لیڈر کشکول لیکر بیرونی دنیا میں گھوم رہے ہیں کیونکہ ہم من حیث ُالقوم حسب عادت ذلت گوارہ کرتےہیں لیکن محنت بالکل نہیں کرتے ۔مقامی دستیاب قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لئے محنت درکا ہے پہاڑوں کا سینہ چیرنا ہوتا ہے سردیوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے ہم محنت کیوں کریں کیونکہ ہم بیرونی امداد اور قرضوں پر گزارا کرنے والے قوم ہیں ۔ چترالی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ ” نالائق بیٹی کے لئے گہنہ اور نالائق بیٹے کے لئے ہتھیار بیکار ہوتی ہے”۔ بالکل اسی طرح شمالی علاقہ جات کے قدرتی وسائل جواہرات سے لیکر آبی اور سیاحتی وسائل تک وطن عزیز کی ہماری قیادت اور اداروں کے سامنے کچھرے کا ڈھیر ہیں۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف بحیثیت شہری آج تک ہمیں ہمارے حقوق نہیں ملے۔ ہماری مثال ایک ایسے بچے کی ہے جسے والدین جنم تو دیتے ہیں لیکن پرورش کے لئے حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ہمارے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں ۔ہم نے آج تک سخت ترین حالات کے اند رزندہ رہنے کے لئے جو کچھ بھی ترقیاتی کام کیا ہے وہ زیادہ تر این جی اوز کے ذریعے یا اپنی مدد آپ کے ذریعے کیا ہے ۔ سرکار کی جانب سے ترقیاتی یا دیگر مد میں آنے والی فنڈ سیاست دانوں اور دفاتر میں بیٹھے ہوئے مگر مچھوں اور پھر ٹھیکیداروں کی من مانیوں کی نظر ہو جاتی ہے گرم چشمہ کی واحد اور مستقبل کا بین القوامی نوعیت کا روڈ انسانوں کے چلنے کے قابل نہیں ہے۔ ایسے مایوس کن حالات میں چترال گرم چشمہ روڈ ملک کے سب سے بڑے مواسلاتی ادارے NHA کے حوالے کرنا اہلیان لٹکوہ کے لئے ایک خوشگوار خبر تھی کیونکہ یہ ادارہ اشتہاروں میں Say No To Corruption کے الفاظ کے ساتھ چھایا ہو ا تھا۔ لیکن حالیہ دنوں مرمت کے نام پر NHA کے ٹھیکیداروں کے ہاتوں گرم چشمہ روڈ پر خرچ ہونے والا قومی خزانے کا پوچھنے ولا کوئی نہیں تھا۔ ٹھیکیداروں کا یہ مافیا اتنا مضبوط تھا کہ کسی کا بھی ان کے سامنے بس نہ چل سکا حتی ٰ کہ NHA بھی ان کے سامنے بے بس نکلا یا پھر سارا کچھ سوچھے سمجھے پلان کے تحت ہو گیا ۔ مرمت کے ٹھیکیدار غیر معیاری کام کرکے غائب ہو چکے ہیں مقامی رضاکاروں پر مشتمل ایک فلاحی تنظیم ایل ڈی ایف ٹھیکیداروں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک چکاہے۔ تنظیم کی جانب سے مختلف فورمز پر اواز اٹھا یا گیا لیکن سننے والا کوئی نہیں ہے۔حکومت اور ریاست کےاِن سب کارستانیوں کا نتیجہ عوامی دھرنے کی صورت میں اب سامنے آچکاہے عوام مجبور و بے بس ہو کر سردی کے اس موسم میں احتجاج کرنےاور دھرنادینے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف عوام موجودہ کمر توڑ مہنگائی کے نیچے دب چکےہیں دوسری طرف گرم چشمہ چومبور پل ٹوٹنے اور خراب روڈوں کی وجہ سے اضافی مہنگائی کا سامنا کر رہا ہے۔ مارکیٹ میں اشیائے خوردونوش نایاب ہو چکے ہیں گرین گدام میں گندم کا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے سوختی لکڑی کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں ۔ستم بالائے ستم سردیاں شروع ہو چکی ہیں مقامی موسمی حالات کے مطابق گھروں میں ہر چیز کا ذخیرہ بروقت ہونا ناگزیر ہے کیونکہ آگے سخت موسمی حالات ہمارے منتظر ہیں۔ اور حکام کے کانوں جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ NHAوالے پل ٹوٹنے کا الزام الٹا عوام پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ یہ بھی ریاست کے اداروں کا کام تھا کہ وہ لوڈ مونیٹرنگ یقینی بناتے تاکہ جیسے تیسے ہم اپنی زندگی جی رہے ہوتے۔
لوگ حالات کے ہاتوں تنگ آچکے ہیں دھرنے کے قائدین کے مطابق اگر اس بار بھی دھرنا و احتجاج کے باوجود اہل ِ اقتدار اور متعلقہ اداروں کی جانب سے عوامی مسائل کے حل کی طرف کوئی مناسب قدم نہیں اٹھا یا گیا تو عوامی طاقت کا اگلا مظاہرہ چترال ٹاؤن اور ڈی سی ہاؤس لوئر چترال میں ہوگا ۔ جس کے ذمہ دار چترال کے عوامی نمائندے اورمتعلقہ ادارے ہو نگے کیونکہ” تنگ آمد بہ جنگ آمد” کے مصداق عوام کشتیاں جلا کر بحالتِ مجبوری گھروں سے نکل چکے ہیں۔
“ساحل کرے گا یاد اسی نامراد کو کشتی خوشی سے جس نے بھنور میں اتار دی”

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔