داد بیداد ….انڈو نیشیا کا امن ما ڈل ….ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی 

حکومت پا کستان کی طرف سے عسکریت پسندوں کو قو می دھا رے میں شا مل کرنے کے لئے محتاط اور با معنی مذاکرات کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے ما ضی قریب میں انڈ ونیشیا کی حکومت نے عسکریت پسندوں کو قومی دھا رے میں شا مل کر کے بد امنی پر قا بو پا یا تھا انڈو نیشیا کے امن ما ڈل کو پوری دنیا میں سرا ہا گیا 2002ء میں با لی (Bali) دھما کوں کے بعد 2005تک دہشت گر دی کی لہر نے پورے انڈو نیشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا 2006ء میں انڈو نیشیا کی حکومت نے عسکر یت پسندوں کو صلح کی پیش کش کی اس پیش کش میں عام معا فی کے علا وہ ما لی مراعات کا پیکیچ بھی شا مل تھا، عسکر یت پسندوں کے ساتھ صلح کا معا ہدہ ہوا تو حا لا ت معمول پر آنا شروع ہوئے اور پائیدار امن کی راہ ہموار ہوئی با لی دھما کوں میں 200سے زیا دہ سیا ح قتل ہوئے تھے اس واقعے نے پوری دنیا میں انڈو نیشیا کو بد نا م کیا تھا پا کستان کا معا ملہ بھی با لی سے متا ثرہ انڈو نیشیا جیسا ہے ہم کہتے ہیں اسلا م امن کا درس دیتا ہے مگر دنیا نہیں ما نتی ہم کہتے ہیں پا کستان سیا حوں اور سر ما یہ کا روں کے لئے محفوظ ملک ہے لیکن دنیا کو یقین نہیں آتا مو جو دہ حا لات میں تحریک لبیک پا کستان کے ساتھ صلح کا معا ہدہ ہو چکا ہے تحریک طا لبان پا کستان کے ساتھ بات چیت جاری ہے خیر مقدم کرنے والوں کے بر عکس خد شات کا اظہار کرنے والے بھی مو جو د ہیں اور ان کے پاس بھی کہنے کو بہت کچھ ہے سب سے بڑا خد شہ یہ ہے کہ داعش کے نا م سے عسکر یت پسند گروہ افغا نستان میں سرگرم ہے اور یہ گروہ خطے میں امن کے قیا م کا کٹر مخا لف ہے صلح نا مہ پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد اگر بد امنی کی نئی لہر آئی تو اس کی ذمہ داری داعش قبول کریگی ما یو سی پھیلا نے والوں کے پاس ایک اور اندیشہ یہ ہے کہ پا کستان کی حالت انڈو نیشیا کی طرح مستحکم نہیں ہمارے ہاں 2002میں پو لیس کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کر کے نا کارہ بنا دیا گیا، اپریشن، انوسٹی گیشن اور پرا سیکیوشن میں کوئی رابطہ کا ری نہیں رہی وحد انی قیا دت (Unity of Command) ختم ہوگئی سول انتظا میہ کو 2002ء میں توڑ کر اس کے اختیار ات سیا سی لو گوں کو دیدیے گئے، عدلیہ میں انصاف اور جزا و سزا کا ایک ہی معیار رہ گیا معیار یہ ہے کہ ملزم کی جیب بھاری ہے یا نہیں اگر ملزم کی جیب بھا ری ہے تو وہ ضما نت کا بھی حقدار ہے اس کے بری ہو کر مزید جرائم کرنے کا امکان بھی روشن ہے ہماری یہ تین بنیا دی کمزوریاں ہیں جو داعش جیسے گروہوں کے مقا بلے میں انڈو نیشیا جیسی حکمت عملی اختیار کرنے کی راہ میں رکا وٹ بن سکتی ہیں ہم نے ان اندیشوں کو اگر اہمیت نہیں دی تو امن کے قیام کا خواب ادھورا رہے گا تصویر کے دونوں رخ ہمارے سامنے ہیں بڑی بات یہ ہے کہ پا ک فوج حکومت کے اقدامات سے متفق ہے اور عسکریت پسندوں کو قومی دھا رے میں لا نے کی پرزور حمایت کرتی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔