دھڑکنوں کی زبان…”مجھے ایک پیاری سی کہانی سناؤ“…محمد جاوید حیات

میں کوشش کرتا ہوں کہ نیند آجائے کروٹیں بدلتے رہتا ہوں مجھے کسی صورت نیند نہیں آتی۔میرے ہمدم مجھے دوا دارو دے دو۔کوئی علاج میری بے بسی کا کرو۔میرے حال پہ رحم فرماو یا مجھے کہانی سناؤ۔۔لومڑ لومڑی کی کہانی، چڑیا چڑیے کی کہانی، گیدڑ کی چالاکی، شیر جنگل کا بادشاہ، دم کٹی بکری کی کہانی، بلبل کا بچہ، بھڑیا اور لامبے کی کہانی۔۔۔میرے ہمدم میں مر جاؤں گا مجھے کچھ سناؤ۔۔مجھے بتاو کہ یہ دنیا ابھی ابھی بنی تھی چشمے اور دریا کے پانی صاف تھے جنگل بیابان گرد الود نہیں ہوتے تھے۔ہوائیں چلتیں تو جگر کو ٹھنڈک بخشتیں طوفان نہیں اٹھتے تھے پہاڑیں شان بے نیازی سے کھڑے تھے ان کو کوئی کاٹتا نہیں تھا ان کے جگر چیر کر سوراخ (ٹنل) نہیں بنایا جاتا۔جنگل کے درخت سرشار تھے ان کو کسی سے خطرہ نہ تھا دریاؤں کا رخ زبردستی موڑا نہیں جاتا۔فضائیں بے کران تھیں کائنات کے راز کسی پہ کھلے نہیں تھے۔شیر کسی پنجرے میں بند نہیں ہوتا۔مور کسی چڑیا گھر کی زینت نہیں بنتی۔ہاتھی کی نکیل پکڑ کے اس کو گمایا نہیں جاتا۔زمین اپنے پیدا کرنے والے کی تھی اس پر کسی کا دعوی نہ ہوتا۔رنگ نسل کو اہمیت نہیں دیا جاتا۔مخلوقات کے گروپ تھے
~ کبوتر با کبوتر باز بہ باز
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کسی جنس کو دوسرے جنس کی آرزو نہ ہوتی۔
مجھے کچھ ہو گیا ہے میرا سکون غارت ہوگیا ہے مجھے کہانی سناؤ۔مجھے بتاؤ کہ رشتے ناطے ہوتے تھے محبت وفا ہوتی تھی احترام اکرام ہوتے تھے حق انصاف ہوتا تھا قناعت شکر ہوتی تھی۔زندگی سیدھی سادھی اورآسان تھی۔ہر ایک کا اپنا مقام تھا جو اس کے ساتھ سجتا تھا۔بیٹا بیٹی،ماں باپ،بہن بھاء، میاں بیوی الگ الگ ڈگریاں تھیں۔قوموں میں غیرت اور سنجیدگی ہوتی تھی۔فرائض کا لحاظ ہوتا۔ڈیوٹی امانت سمجھی جاتی۔۔مجھے وہ پیاری سی کہانی سناؤ۔۔کہ حکمران عوام کے خادم ہوا کرتے تھے لیڈر قوم کی آنکھ کا تارا ہوا کرتا۔وہ قوم کی دولت کو امانت سمجھتا۔عدالتوں میں انصاف ہوتا لوگ مطمین ہوتے۔ان کی جان و مال کا تحفظ ہوتا۔وہ اپنے حکمران کو نہ خود برا کہتے نہ برا کہنے کو برداشت کرتے۔ ان کی زندگی آرام سے گزرتی تھی۔مجھے وہ گزرا ہوا پاکیزہ وقت کے تقاضے سناؤ جب عورت پورے لباس میں ہوتی تھی اس کی نسوانیت اس کی پہچان تھی۔اس کو مرد بننے کی آرزو نہیں تھی اس کی حیاء بے مثال تھی۔مجھے سناؤ کہ ایک وقت تھا کہ حق کا بول بالا تھا پورا سچ تھا ادھا سچ کہیں نہیں تھا منافقت دھوکہ دہی وغیرہ برایاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ مجھے بتاؤ میں پریشان ہوتا ہوں کہ آخر اس دنیا کو کیا ہوگیا ہے یہ انسان یہ سب مخلوقات میں سے اشرف مخلوق اس دنیا کو بے چین کیوں کر رکھی ہے جنگل کے درندے،فضاء کے پرندے، سبزہ زاروں کے چرندے اس مخلوق کے شر سے محفوظ نہیں۔وہ ترقی کے نام پہ کیا کچھ نہیں کر رہی۔ایک طرف سامان آسائش بنا رہی ہے دوسری طرف تباہی کے سامان بن رہے ہیں۔ ایک طرف زندگی رنگینیوں میں کھو کے رہ گئے ہے دوسری طرف غریب نوالے کو ترس رہے ہیں۔ایک قوم دوسری قوم کو مٹانے کی تگ و دو میں ہے۔جس کے پاس لاٹھی ہو بھینس بھی اسی کی ہو۔۔یہ سارے سمندر،یہ دریا،یہ پہاڑ یہ سب معدانیات اس کے ہوں۔فلان کے پاس گرم پانی کیوں ہے فلان کے ہاں معتدل موسم کیوں ہے فلان کے پہاڑوں میں معدانیات کیوں ہیں فلان نے اٹم بم کیوں بنایا۔۔یہ سب جھنجٹ توتکار مجھے پرشان کر رہی ہیں ہمدم۔۔مجھے سویٹ سی کہانی سناؤ کہ یہ دنیا ایسی نہ تھی۔۔۔۔یہ بہت خوبصورت ہوا کرتی تھی۔۔جب پروانہ چراغ کا طواف کرتا۔جب بلبل گل کی تعریف کرتی۔جب بھونرے پھول کی پنگھڑیوں پہ جان دیتے۔جب چاندنی ہر انگن میں اترتی۔نسیم سحر ہر کوچے میں خوشبو بانٹتی۔سمندر کی مچھلیاں بے خوف تھیں۔جب بہار آتی تو پھوار گرتا۔جب بادل گرجتے تو بچے لحافوں میں چھپ جاتے۔جب بیٹی کا رشتہ آتا تو وہ رورو کر بے حال ہوتی۔ جب بیٹے سے رشتے کی بات ہوتی تو وہ شرم سے پانی پانی ہوتا۔حرم مرمر کے سلوں سے بنا نہیں تھا۔کوئی اٹم بم، میزایل نہیں تھا غیرت تلوار کے ساتھ ٹکی ہوئی تھی۔بادشاہ عدالت کے کٹہرے میں خود جاکے مجرم کی طرح کھڑا ہوتا۔یقین محکم،عمل پیہم خالی الفاظ نہیں عمل تھے۔یہ کہانی مجھے سناؤ تاکہ مجھے چند لمحوں کے لیے نیند آجائے۔۔چلو شروع کرو۔۔۔۔ کہ بیٹا! دنیا ابھی نئی نئی بنی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔