داد بیداد..آدھا گلاس مسئلہ ہے..ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

استاد کی عمر 76بر س ہے شاگرد 32بر س کا ہے استاد نے کار ل مارکس کو 1968ء میں پڑھا تھا شاگرد نے 2010میں کار ل مارکس کو پڑھا، چی گویرا کو اپنا آئیڈیل بنا یا پھر لینن اور ما زو ے تنگ سے لیکر فیدل کا سترو تک ہر سامراج دشمن کو اپنا آئیڈیل قرار دیا ایک بڑے ادارے میں اہم عہدے پر فائز ہے استاد کے ساتھ اکثر بحث و تکر ار کی نوبت آتی ہے جب پا کستا نی سو سائٹی، ملکی سیا ست اور معیشت کا ذکر آتا ہے تو شاگرد کا پارہ چڑھ جا تا ہے استاد کہتا ہے زندگی اعتدال کا نا م ہے، اعتدال سے جو ہٹ گیا زندگی کی لذت سے محروم ہوا، شاگرد کہتا ہے یہ بھی کوئی زندگی ہے ایک شخص کار خا نے کا ما لک ہے دوسرا شخص اسی کار خا نے میں مزدوری کر تا ہے مہینے کے آخر میں ما لک 2ارب روپے کما تا ہے مزدور کو 20ہزار روپے ملتے ہیں یہ بھی کوئی زندگی ہے ایک شخص افسر ہے اُس کو گاڑی ملی ہے ڈرائیور ملا ہے، سجا سجا یا گھر ملا ہے دوسرا شخص دربان ہے وہ سائیکل پر دفتر آتا ہے یہ بھلا کونسی زندگی ہے؟ استاد کہتا ہے کتا بی دنیا سے با ہر آجا وگے تو تمہا را واسطہ عملی دنیا سے پڑے گا عملی دنیا میں سر ما یہ دار اور افیسر کی بھی ضرورت ہے، جج اور جرنیل کی بھی ضرورت ہے، مزدور، ڈرائیور اور در بان کی بھی ضرورت ہے سب کو مزدور بنا و گے تو انتظام اور اہتما م کون کرے گا؟ سب کو سر ما یہ دار بنا و گے تو راج، مزدوراور مستری کہاں سے لاؤ گے؟ شاگرد نہیں مانتا وہ کہتا ہے شہر کی بڑی عما رتیں چند لو گوں کی ملکیت کیوں ہیں؟ ملک کی زمینوں پر چند خا ندانوں کا قبضہ کیوں ہے؟ استاد کہتا ہے یہ فطرت کا اصول ہے لینن اور سٹا لن نے اس اصول کی نفی کی تو لوگ قحط سے دوچار ہوئے گور با چوف کو 70سال بعد فطرت کے اصولوں کی طرف رجوع کر کے ملک کو بچا نا پڑا ماؤ اور فید ل کا سترو نے فطرت کے اصو لوں سے انحراف نہیں کیا ان کا نظام بدلتے حا لات کے ساتھ خود بخود بدلتا رہا یہ فطرت کا اصول ہے کہ اعتدال دیر پا ہو تا ہے افراط و تفریط کی عمر مختصر ہو تی ہے شاگرد نے عالمی ادب کا مطا لعہ ایک مخصوص عینک کے ساتھ کیا ہے اس لئے وہ ”ففتھ جنریشن وار“ جیسے جدید نظریات کا قائل نہیں وہ اس بات کا بھی قائل نہیں کہ دشمن نے ملک کو نقصان پہنچا نے اور قومی وحدت کو کمزور کرنے کے لئے مختلف گروہوں کے در میان نفرت کی دیوار یں حا ئل کر رکھی ہے شاگر د کی نظر میں آدھا گلا س خا لی ہی ہو تا ہے وہ نہیں ما نتا کہ دشمن نے نفرت کی دیوار حا ئل کر کے کا لج اور یو نیور سٹی والوں کو مسجد اور مدرسہ والوں سے دور کر دیا، قانون دانوں اور ججوں میں نفرت کی دیوار حا ئل کر دی، سیا ست دانوں کو صحا فیوں سے بد ظن کر دیا مفتی والوں کو خا کی والوں سے دور کر دیا کوچہ وبازار میں ڈاکٹر وں، انجینئروں، اعلیٰ انتظا می افیسروں، سرما یہ داروں اور جا گیر داروں کے خلاف نفرت آمیز گفتگو کی داغ بیل ڈال دی ”مسٹر“ کو مو لا نا کے مقا بلے پر کمر بستہ کیا اور مولانا کو ”مسٹر“ کے خلاف صف اراء کر دیا استاد کو پس منظر کی یہ کاروائیاں نظر آتی ہیں مگر شاگرد کو نظر نہیں آتیں وہ آئیڈیل کی تلا ش میں سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیا ر ہے کیونکہ اُس نے انقلا بی لٹریچر پڑھا ہے مذاق تھوڑی ہے استاد اور شاگرد کے درمیاں خیالات کی یہ کشمکش آج کل گھر گھر کی کہا نی ہے لیڈروں کے بیا نات اور سیا سی افراتفری سے اس کشمکش میں روز بروز اضا فہ ہو رہا ہے اس کشمکش کا بنیا دی مسئلہ آدھا گلا س ہے آدھا گلا س خا لی کی جگہ پر نظر آئے تو کشمکش ختم ہو گی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔