ایک شفیق باپ کی جدائی کاغم، ایک سال گزرگئی۔۔۔۔سیدنذیرحسین شاہ نذیر،

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم

کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی
ایک شفیق باپ سایہ دارشجرکی مانندہے جس کاکوئی نعم البدل نہیں ہوتی ۔والدصاحب کے اس دنیائی فانی سے رخصت ہوکرایک سال گزرگئی مگراُن کی کمی زندگی کے ہرموڑپرمحسوس ہوتی ہے اس کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کبھی بھی فراموش نہیں کیاجاسکتاہے ۔آج میں جن لوگوں کی محفل میں بیٹھتاہوں اس میں میرے والدمحروم کی محنت اوردعائیں شامل ہیں اوراُن کی دعاوں کامرہون منت ہے ۔ ان کی یادین میرے اورمیرے گھرکے دیگرافرادکے ساتھ ہیں ایسامحسوس ہوتاہے کہ ہم نے اُن کی انگلی تھامی ہوئی ہے۔
لفظ جدائی سے ہی تزپ جاتاہوں کیونکہ جدائی کااحساس دلانے والے وہ دن جب مجھ بدنصیب کے سرپہ آسمان ٹوٹ پڑا،پاون تلے زمین نکل گئی ،خوشیان روٹھ گئی،میرے مستیوں پرتریچ میرجیساپہاڑٹوٹ پڑا، خوشیوں ،مسرتوں اورمحبتوں کے چمکتے روشن چراغ بجھ گئے موت کے فرشتے نے سرسے سایہ چھین لیاتھا۔میرے والدمحترم سیدمعظم شاہ آج سے ایک سال قبل 10دسمبر2020کوبروزجمعرات بوقت بعدنمازظہرمجھے تنہاچھوڑکراپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ والدکی جدائی کی تلخ تجربات نے مجھے دنیامیں مشکلوں سے لڑکرجینے کاہنرسکھارہاہے لیکن اُن کی کمی اورجدائی ہمیشہ تڑپاتی ہے۔اگرچہ والدمحترم کواس دنیاسے گئے ایک سال ہوگئے ہیں ،مگرایسالگتاہے کہ یہ کل کی بات ہے مگراُن محبت بھری خوش کلامی اُن کی موجودگی کااحساس دلاتی ہے ۔جب بھی میں ہمبت ہارجاتاہوں۔تو اُن کی نصیحت مجھے نیاحوصلہ دیتی ہے وہ ہمیشہ حالات کی مقابلہ کرنےکا احساس دلاتے تھے ۔
باپ کارشتہ اولادسے دنیاوی تقاضوں سے پاک ہوتاہے وہ اپنی محنت اورخلوص سے اولادکی شخصیت کی تعمیرکرتے ہوئے معاشرے میں بڑے مقام دینے کی خواہش کرتے ہیں۔والددنیاکی وہ عظیم ہستی ہے جودن رات محنت اورہرمشکل کامقابلہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کی بہترین پرورش اوراُن کی راحت کےلئے ہروقت محنت مزدوری میں مصروف عمل رہ کرزندگی گزارتاہے ۔اورہرباپ کایہی ایک خواب ہوتاہے کہ اُ س کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں باعزت زندگی بسرکرسکیں۔باپ اللہ تعالی کی ایک عظیم ترین نعمت ہے خوش نصیب اورخوش قسمت وہ لوگ ہیں جنہیں یہ عظیم نعمت میسرہے۔جن کے والدمحترم حیات ہے وہ ہرغم اورستم سے آزادہوتے ہیں اُن کوزمانے کی نہ فکراورنہ ڈرہوتی ہے ،باپ ایک حوصلہ ہوتاہے ۔جوہردرد،دکھ سہہ کراولادکوخوشی دیتاہے۔جب باپ کاسایہ سرسے اٹھتاہے تب اولاد کومحسوس ہوتاہے کہ اس کے سرپرکتنابھاری بوجھ ہے ۔باپ کی جدائی واقعی ایک متحان ہوتی ہے ایک طرف وہ نہ بھولنے والی غم دوسری جانب معاشرے کی کی جھوٹی تسلیان سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ زندگی کوکس طرح بسرکیاجائے ۔ والدکی اچانک جدائی سے ہرطرح اندھیرا ہی اندھیرابرپاہوگیاتھا۔
اللہ تعالیٰ کی وفضل کرم سے اپنے علاقے میں عزت آج بھی میرے والدمحترم کی وجہ سے ہے وہ اپنے پیچھے محبتوں کاایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ چھوڑگئے ۔اُن کے دوست اورچاہنے والے آج بھی اچھے برے وقت میں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں ہمارے سرپرشفقت بھراہاتھ رکھتے ہیں اوریہ وہ محبت کادرخت ہے جس کابیج میرے والدمحترم نے بویاتھااورآج ہم اس درخت کے سائے میں بیٹھے ہیں۔آج بھی والد محترم کے قریبی ہم نشین دوستوں ،عزیزوں اوراُ ن سے خاص محبت رکھنے والے رشتہ داروں سے ملتاہوں توآنکھوں سے آنسوبہہ جاتے ہیں۔ دل کی بات زبان پرلاکربول نہیں سکتاہوں اُن کی جدائی کاغم پھرسے تازہ ہوجاتے ہیں ۔اولادکے لئے اگرچہ باپ کبھی کھبارسخت لہجہ استعمال کرتاہے مگراس کے اس لہجہ میں بھی پیاربھری محبت کی ایک بڑی داستان چھپی ہوتی ہے ۔
باپ زندگی کاوہ قیمتی سرمایہ جس کوکھوجانے کے بعدکبھی بھی نہیں ملتاہے۔جن بہن بھائیوں اوردوستوں سے عاجزانہ التجاء ہے کہ جن کے باپ حیات ہیں اُن کی صحیح معنوں میں خدمت کریں اورجن جن کی والد اس فانی دنیاسے کوچ کرگئے ہیں اللہ تعالیٰ اُ ن کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرما۔یااللہ میرے والدمحترم کواپنے نیک بندوں میں شمارکرکے جنت الفردوس جگہ عطاء فرمائے (آمین ثم آمین یارب العالمین)
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا ہے اک فرشتہ باپ کے روپ میں

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم

کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

ایک شفیق باپ سایہ دارشجرکی مانندہے جس کاکوئی نعم البدل نہیں ہوتی ۔والدصاحب کے اس دنیائی فانی سے رخصت ہوکرایک سال گزرگئی مگراُن کی کمی زندگی کے ہرموڑپرمحسوس ہوتی ہے اس کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کبھی بھی فراموش نہیں کیاجاسکتاہے ۔آج میں جن لوگوں کی محفل میں بیٹھتاہوں اس میں میرے والدمحروم کی محنت اوردعائیں شامل ہیں اوراُن کی دعاوں کامرہون منت ہے ۔ ان کی یادین میرے اورمیرے گھرکے دیگرافرادکے ساتھ ہیں ایسامحسوس ہوتاہے کہ ہم نے اُن کی انگلی تھامی ہوئی ہے۔

لفظ جدائی سے ہی تزپ جاتاہوں کیونکہ جدائی کااحساس دلانے والے وہ دن جب مجھ بدنصیب کے سرپہ آسمان ٹوٹ پڑا،پاون تلے زمین نکل گئی ،خوشیان روٹھ گئی،میرے مستیوں پرتریچ میرجیساپہاڑٹوٹ پڑا، خوشیوں ،مسرتوں اورمحبتوں کے چمکتے روشن چراغ بجھ گئے موت کے فرشتے نے سرسے سایہ چھین لیاتھا۔میرے والدمحترم سیدمعظم شاہ آج سے ایک سال قبل 10دسمبر2020کوبروزجمعرات بوقت بعدنمازظہرمجھے تنہاچھوڑکراپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ والدکی جدائی کی تلخ تجربات نے مجھے دنیامیں مشکلوں سے لڑکرجینے کاہنرسکھارہاہے لیکن اُن کی کمی اورجدائی ہمیشہ تڑپاتی ہے۔اگرچہ والدمحترم کواس دنیاسے گئے ایک سال ہوگئے ہیں ،مگرایسالگتاہے کہ یہ کل کی بات ہے مگراُن محبت بھری خوش کلامی اُن کی موجودگی کااحساس دلاتی ہے ۔جب بھی میں ہمبت ہارجاتاہوں۔تو اُن کی نصیحت مجھے نیاحوصلہ دیتی ہے وہ ہمیشہ حالات کی مقابلہ کرنےکا احساس دلاتے تھے ۔

باپ کارشتہ اولادسے دنیاوی تقاضوں سے پاک ہوتاہے وہ اپنی محنت اورخلوص سے اولادکی شخصیت کی تعمیرکرتے ہوئے معاشرے میں بڑے مقام دینے کی خواہش کرتے ہیں۔والددنیاکی وہ عظیم ہستی ہے جودن رات محنت اورہرمشکل کامقابلہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کی بہترین پرورش اوراُن کی راحت کےلئے ہروقت محنت مزدوری میں مصروف عمل رہ کرزندگی گزارتاہے ۔اورہرباپ کایہی ایک خواب ہوتاہے کہ اُ س کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں باعزت زندگی بسرکرسکیں۔باپ اللہ تعالی کی ایک عظیم ترین نعمت ہے خوش نصیب اورخوش قسمت وہ لوگ ہیں جنہیں یہ عظیم نعمت میسرہے۔جن کے والدمحترم حیات ہے وہ ہرغم اورستم سے آزادہوتے ہیں اُن کوزمانے کی نہ فکراورنہ ڈرہوتی ہے ،باپ ایک حوصلہ ہوتاہے ۔جوہردرد،دکھ سہہ کراولادکوخوشی دیتاہے۔جب باپ کاسایہ سرسے اٹھتاہے تب اولاد کومحسوس ہوتاہے کہ اس کے سرپرکتنابھاری بوجھ ہے ۔باپ کی جدائی واقعی ایک متحان ہوتی ہے ایک طرف وہ نہ بھولنے والی غم دوسری جانب معاشرے کی کی جھوٹی تسلیان سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ زندگی کوکس طرح بسرکیاجائے ۔ والدکی اچانک جدائی سے ہرطرح اندھیرا ہی اندھیرابرپاہوگیاتھا۔

اللہ تعالیٰ کی وفضل کرم سے اپنے علاقے میں عزت آج بھی میرے والدمحترم کی وجہ سے ہے وہ اپنے پیچھے محبتوں کاایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ چھوڑگئے ۔اُن کے دوست اورچاہنے والے آج بھی اچھے برے وقت میں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں ہمارے سرپرشفقت بھراہاتھ رکھتے ہیں اوریہ وہ محبت کادرخت ہے جس کابیج میرے والدمحترم نے بویاتھااورآج ہم اس درخت کے سائے میں بیٹھے ہیں۔آج بھی والد محترم کے قریبی ہم نشین دوستوں ،عزیزوں اوراُ ن سے خاص محبت رکھنے والے رشتہ داروں سے ملتاہوں توآنکھوں سے آنسوبہہ جاتے ہیں۔ دل کی بات زبان پرلاکربول نہیں سکتاہوں اُن کی جدائی کاغم پھرسے تازہ ہوجاتے ہیں ۔اولادکے لئے اگرچہ باپ کبھی کھبارسخت لہجہ استعمال کرتاہے مگراس کے اس لہجہ میں بھی پیاربھری محبت کی ایک بڑی داستان چھپی ہوتی ہے ۔

باپ زندگی کاوہ قیمتی سرمایہ جس کوکھوجانے کے بعدکبھی بھی نہیں ملتاہے۔جن بہن بھائیوں اوردوستوں سے عاجزانہ التجاء ہے کہ جن کے باپ حیات ہیں اُن کی صحیح معنوں میں خدمت کریں اورجن جن کی والد اس فانی دنیاسے کوچ کرگئے ہیں اللہ تعالیٰ اُ ن کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرما۔یااللہ میرے والدمحترم کواپنے نیک بندوں میں شمارکرکے جنت الفردوس جگہ عطاء فرمائے (آمین ثم آمین یارب العالمین)

مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں

میں نے دیکھا ہے اک فرشتہ باپ کے روپ میں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔