ممکنہ انسانی المیے کا تدارک…محمد شریف شکیب

برطانیہ کی ایک درجن سے زائد امدادی ایجنسیوں نے افغانستان کی تین کروڑ80لاکھ کی آبادی کو قحط سے بچانے کے لیے عوامی عطیات کی ہنگامی اپیل کردی ہے۔مہاجرین کی آباد کاری سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یواین ایچ سی آر کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اگلے تین ماہ میں دس لاکھ افغان بچے غذائی قلت کے باعث موت کے خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں اور22 ملین سے زیادہ افراد بھوک کا شکار ہوں گے۔برطانیہ کے 13 خیراتی ادارے مل کر آفت سے بچنے میں مدد کے لیے رقم اکھٹی کریں گے۔ ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی نے خبردار کیاہے کہ افغانستان میں کورونا کی وبا، مختلف گروہوں کے درمیان باہمی تنازعات اور خشک سالی نے ملک کو ایک خطرناک پوائنٹ پر پہنچا دیا ہے۔افغانستان ایک چوتھائی صدی سے بدترین خشک سالی کی لپیٹ میں ہے، ملک میں گندم اور دیگر فصلیں برباد ہوچکی ہیں جس کے نتیجے میں آٹے اور دیگر اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔افغانستان میں سردی کی شدت بھی بڑھنے لگی ہے اکثر علاقوں میں درجہ حرارت منفی پندرہ سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے اور برفباری سے سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے امدادی سامان کی ترسیل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈیزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر صالح سعید کے مطابق افغانستان کی موجودہ صورتحال میں ہم صرف بیٹھ کر تماشہ نہیں کرسکتے۔ ہم انسانی المیہ رونما ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔لاکھوں خاندانوں کو ہنگامی خوراک اور نقد رقم فراہم کرنے، چھوٹے بچوں اور ماؤں کے لیے نیوٹریشن کی فراہمی اور ہیلتھ کیئر وہ شعبے ہیں جن پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔سعودی عرب اور دیگر اسلامی ملکوں نے بھی افغانستان کو امدادی سامان کی فراہمی شروع کردی ہے۔ پاکستان گذشتہ چار مہینوں سے اپنے افغان مسلمان بھائیوں کی دامے، درمے اور سخنے مدد کر رہا ہے۔ طورخم اور چمن کی سرحد پر پابندیاں نرم کی گئی ہیں۔ پاکستان کی شبانہ روز کوششوں سے اسلام آباد میں اسلامی ممالک کی تنظیم کا وزارتی اجلاس ہورہا ہے جس میں 57اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ شرکت کر رہے ہیں۔ او آئی سی کا وزارتی اجلاس اس حوالے سے اہم ہے کہ اسلامی ممالک اخوت اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان عوام کی فوری مدد کی کوئی حکمت عملی مرتب کریں گے۔ جس سے ممکنہ انسانی المیے کو روکنے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب او آئی سی کے رکن ممالک طالبان حکومت کو عالمی برادری کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کرنے پر قائل بھی کریں گے جن کی تکمیل کی شرط پر مغربی ممالک نے کابل میں امدادی کاروائیاں روک دی ہیں اور امریکہ کو بھی اپنے بینکوں میں افغانستان کے منجمد اثاثے غیر منجمد کرنے پر قائل کرنے کی بھی کوئی سبیل نکل سکتی ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفادات حاصل کرنے اور طالبان کو ممنون بنانے کے لئے افغانستان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے پڑوسی ملک میں بھوک کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتوں کی فکر ہے اور مسلمان پڑوسی ملک ہونے کے ناطے بدنامی سے بچنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔اگر افغانستان میں قحط کی صورتحال پیدا ہوگی تو قریب ترین ملک ہونے کی وجہ سے لاکھوں افغانی جانیں بچانے کے لئے پاکستان ہی آئیں گے۔ جبکہ پاکستان گذشتہ بیالیس سالوں سے 35لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔توقع ہے کہ او آئی سی کے وزارتی اجلاس میں مسلم ممالک کو ایسا متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے میں کامیاب ہوں گے کہ کسی بھی طاقت کو آئندہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے کسی اسلامی ملک پر چڑھائی کرنے کی جرات نہ ہو۔ اور دنیا کے کسی خطے میں مسلمانوں پر مظالم اور استحصال کی صورت میں تمام مسلمان ممالک ان کی مدد کو پہنچ سکیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔