خودداری اورخودانحصاری…محمد شریف شکیب

وزیراعظم عمران خان نے امریکہ پر واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں ساتھ دینے کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچا ہے۔افغانستان میں فوجی ناکامی کا نزلہ پاکستان پر نہیں گرایا جاسکتا۔ افغانستان میں امریکہ کی ناکامی کا سبب پاکستان نہیں خود امریکہ کی غلط پالیسیاں ہیں۔دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں امریکہ اور اس کے کسی بھی اتحادی ملک نے اتنی بڑی قربانی نہیں دیں جتنی ہم نے دی ہیں۔ہماری طرح کسی ملک کا 80 ہزار جانوں کا نقصان نہیں ہوا، کہیں 30 سے 40 لاکھ افراد اندرونِ ملک ہی دربدر نہیں ہوئے۔چالیس لاکھ پناہ گزینوں کا بوجھ کسی ملک پر نہیں پڑا۔ نہ ہی کسی کی معیشت کو 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا۔ مسلمان ممالک میں ایسے تھنک ٹینکس کہاں ہیں جو جواب دیتے کہ اسلام اور دہشت گرد ی کاآپس میں کوئی تعلق نہیں۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ کوئی مذہب دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں اور دہشت گردی کو کس نے اور کیوں نتھی کیا۔ بھارت انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے مگر کوئی مغربی ملک اس پر تنقید نہیں کرتا۔بے مثال قربانیوں اور جانی و مالی نقصان کے باوجود کسی نے پاکستان کو کریڈٹ نہیں دیا بلکہ ڈبل گیم کھیلنے کا الزام لگاکر الٹا بدنام کیا گیا۔ غلطیاں وہ کررہے تھے اور قربانی کا بکرا پاکستان بن رہا تھا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان ان الزامات کا مؤثر جواب نہیں دے سکا کیوں کہ کوئی ایسا تھنک ٹینک نہیں تھا جو قیادت کو آگاہی دیتا، پاکستان اس جنگ کا شکار بنا یاگیا تھا، وہ دور ہمارے لئے باعث تضحیک تھا کہ ہم ساتھ بھی دے رہے تھے، اپنے آپ کو اتحادی بھی کہہ رہے تھے اور وہ اتحادی ہم پر ہی بم برسا رہا تھا جس سے ہمارے لوگ مرے اور الزام بھی ہم پر لگائے گئے، کہتے تھے ہم آپ کو امداد دے رہے ہیں جبکہ معاشی نقصان کے مقابلے وہ امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ سیاسی قوتیں حکومت میں آنے اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔ ہمارے کسی سربراہ کو حقائق دنیا کے سامنے رکھنے، امریکہ اور یورپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ یہ صورتحال قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی اچانک رحلت کے بعد شروع ہوئی۔ اس وقت کے وزیراعظم کو افسر شاہی نے سوویت یونین کی دعوت ٹھکرا کر امریکہ کا پہلا سرکاری دورہ کرنے کا مشورہ دیا۔ جاور ہم نے غیر مشروط طور پر خود کو امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا۔ صدر ایوب خان کو گیارہ سالہ اقتدارکے خاتمے کے بعد احساس ہوا کہ ہماری خارجہ پالیسی درست نہیں۔اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ”ترقی پذیر ممالک کو ایسے دوستوں کی ضرورت ہے جو عزت و احترام کے بدلے ہمار ا احترام کریں،ہماری کی ضرورتوں کو پوری کریں۔ اچھے برے وقت میں ہمارا ساتھ دیں۔ہمیں آقاؤں کی نہیں بلکہ دوستوں کی ضرورت ہے“ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کی۔ مغرب پر تکیہ کرنے کے بجائے قدرتی وسائل سے مالامال مسلمان ملکوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی۔ دو قطبی نظام کے مقابلے میں غیر وابستہ ممالک پر مشتمل تیسری دنیا تشکیل دینے کی کوشش کی۔ دفاعی استحکام کے لئے پاکستان کا جوہری پروگرام شروع کیا۔ امریکہ پر انحصار کرنے کے بجائے چین اورسوویت یونین سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کو یترجیح دی۔ روس نے جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا سٹیل مل ہمیں تحفے میں دیا۔ چین نے شاہرام قراقرم تعمیر کرکے ہمارے لئے تجارت کے راستے کھول دیئے۔پاکستان ہیوی میکینکل کمپلیکس کا تحفہ دیا۔ امریکہ نے بدلہ لینے کے لئے بین الاقوامی سازش کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کو ایک من گھڑت مقدمہ میں پھنسا کر پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا۔ امریکہ کے ساتھ غیر مشروط اور یکطرفہ دوستی کا ہمیں نقصان ہی ہوا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کریں دیگر اقوام کی طرح قومی مفادات کی بنیاد پر اقوام کے ساتھ تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ اور دوسروں پر انحصار کی پالیسی ختم کرکے اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہونے کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔