مہنگائی کی کمرٹوٹنے کی نوید…محمد شریف شکیب

وفاقی وزراء نے عوام کو نوید سنائی ہے کہ رواں سال کے دوران مہنگائی کی کمر ٹوٹے گی۔ مہنگائی کی لہر آتے ہی حکومت نے ہر گھر کو صحت کارڈ دیا،عوام کو احساس راشن کارڈ دینے جارہے ہیں جس پر انہیں ضروری اشیائے خوردونوش کی خریداری پر 30فیصد سبسڈی ملے گی امسال بھی گندم اور چاول کی ریکارڈ فصل متوقع ہے۔اسی اثناء میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی میں ایک درخواست جمع کرائی ہے کہ بجلی کی قیمت میں گذشتہ سال جون سے ستمبر تک کی سہ ماہی کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں عوام کی جیبوں سے 17ارب 85کروڑ روپے نکلوانے کی منظوری دی جائے۔ نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی کا کہنا ہے کہ بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کی درخواست پر سماعت 12جنوری کو ہوگی جس کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے گا،کمپنیوں نے کیپسٹی چارجز کی مد میں 5 ارب 74 کروڑ روپے اور ڈسٹری بیوشن لاسز کی مد میں 9 ارب روپے وصول کرنے کی اجازت مانگی ہے۔دوسری جانب نیاسال شروع ہونے کے پہلے ہی دن حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چار روپے فی لیٹر اضافے کا اعلان کیاتھا۔ تندور گرم دیکھ کر گیس کمپنیاں بھی عوام کا خون نچوڑنے میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کے لئے گیس قیمتوں میں بھی اضافے کی درخواست دی سکتی ہیں۔فنانس بل کی منظوری کے بعد اس کے نفاذ سے مہنگائی کی نئی لہر آنے کا بھی خدشہ ہے اگرچہ وزارت خزانہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ منی بجٹ سے عام آدمی پر بوجھ نہیں پڑے گا۔دوسری جانب ساڑھے تین سو ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے اور سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کی بات ہورہی ہے۔ سیلز ٹیکس میں اضافے سے ملک کی بائیس کروڑ آبادی میں سے اکیس کروڑ 80لاکھ افراد براہ راست متاثر ہوں گے۔ صرف بیس لاکھ متمول افراد ہی سیلز ٹیکس میں اضافے سے متاثر نہیں ہوں گے۔ جن میں بڑے بڑے سرمایہ دار، صنعت کار، جاگیر دار، کارخانے دار، سیاست دان اور قومی خزانے سے لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور دیگر مراعات پانے والے شامل ہیں۔ جب مصنوعات کارخانے سے پیک ہوکر مارکیٹ میں پہنچتی ہیں تو صنعت کار سیلز ٹیکس دیتا ہے۔پھر ہول سیل ڈیلر پرچوں فروشوں کو مال بیچ کر اس پر سیلز ٹیکس دیتا ہے۔ پرچوں فروش گاہکوں کو مال فروخت کرکے سیلز ٹیکس دیتا ہے اور آخر میں گاہک قیمت کے ساتھ سیلز ٹیکس ادا کرکے مال خریدتا ہے۔ سیلز ٹیکس بارہ روپے سے بڑھا کر سترہ روپے کرنے کی تجویز ہے۔ جبکہ ایک ہی چیز پر چار مرتبہ ٹیکس لگاکر حکومت درحقیقت بیس روپے اضافی ٹیکس وصول کرتی ہے۔ صرف سیلز ٹیکس کے نفاذ سے سرکاری و پرائیویٹ اداروں کے ملازمین، دیہاڑی دار مزدور، کسان اور غریب لوگوں کو چاول، دالوں، مصالحہ جات، آٹا، چینی، گڑ، نمک، صابن، سرف، ٹوتھ پیسٹ، چکن، گوشت، گھی، کوکنگ آئل اور روزمرہ ضرورت کی دیگر اشیاء کی خریداری پر اضافی رقم خرچ کرنی ہوگی۔ پٹرولیم مصنوعات، گیس، بجلی، ایل پی جی اور ایل این جی کی قیمتوں میں ماہ بہ ماہ اضافہ ہورہا ہے۔جس کی وجہ سے روزمرہ ضرورت کی ہر چیز ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط پوری کرکے ایک ارب ڈالر قرضے کی قسط وصول کرنا حکومت کی مجبوری ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی شرائط میں بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا، سیلز ٹیکس اور دیگر محصولات میں اضافہ بھی شامل ہیں۔ ابھی انٹرنیٹ اور موبائل ری چارج پر ٹیکسوں میں اضافے کے اثرات بھی ظاہر ہونا باقی ہیں۔ اس صورتحال کے پیش
نظر رواں سال مہنگائی میں کمی کا کوئی امکان دور دور تک بھی نظر نہیں آرہا۔ حکومت کو جھوٹی تسلیاں دینے کے بجائے عوام کو صاف صاف بتادینا چاہئے کہ مہنگائی کی ایک اور کمر توڑ لہر کے لئے قوم تیار رہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔