کروڑ پتی ٹیکس نادہندگان…محمد شریف شکیب

غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے حکومت نے فنانس ترمیمی بل کے ذریعے عوام پر ٹیکسوں کا نیابھاری بھر کم بوجھ لادنے کی تیاری کرلی ہے۔ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے نام پر عوام کو ٹیکسوں اور مہنگائی کی زنجیروں میں جکڑنے والے اراکین پارلیمنٹ خود کتنے ٹیکس دیتے ہیں اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے فہرست جاری کی ہے۔ ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق سال 2019میں پی ٹی آئی کے ایم این اے محمد نجیب ہارون سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے رکن پارلیمنٹ بن گئے ہیں۔ انہوں نے 14 کروڑ 7 لاکھ 50ہزارروپے ٹیکس ادا کیا۔ اپنے ٹیکس گوشواروں میں محمد نجیب نے اپنی آمدن 1 ارب 87 کروڑ 66 لاکھ روپے ظاہر کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی آمدنی 4 کروڑ 35 لاکھ روپے رہی اور انہوں نے 98 لاکھ 54 ہزار 959 روپے ٹیکس دیا۔ شہباز شریف کی آمدنی 5 کروڑ 63 لاکھ روپے تھی انہوں نے 82 لاکھ 42 ہزار روپے ٹیکس دیا۔ آصف علی زرداری کی آمدنی 28 کروڑ 26 لاکھ روپے تھی انہوں نے ٹیکس کی مد میں 22 لاکھ 18 ہزار روپے دیے۔بلاول بھٹو نے 3 کروڑ 81 لاکھ روپے کمائے اور5 لاکھ 35 ہزار روپے ٹیکس دیا۔ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی آمدنی صرف 9 لاکھ 38 ہزار روپے تھی اور انہوں نے 2019 میں 2 ہزار روپے ٹیکس دیا۔وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی آمدنی 5 کروڑ 70 لاکھ روپے تھی10 لاکھ 99 ہزارروپے ٹیکس ادا کیا۔وزیراعلی خیبرپختو نخوا محمود خان کی آمدنی 25 لاکھ 80 ہزار روپے تھی اور انہوں نے 66 ہزار 258 روپے ٹیکس ادا کیا۔شاہانہ طرززندگی رکھنے والے بعض ارکان پارلیمنٹ نے کوئی ٹیکس نہیں دیا۔ ایسے 19ممبران قومی اسمبلی وسینیٹرزکی فہرست سامنے آگئی جن کا ٹیکس زیرو ہے جن میں پی ٹی آئی کے پانچ ، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اورمسلم لیگ(ق) کاایک ایک جبکہ جے یوآئی (ف) کے دو ممبران قومی اسمبلی شامل ہیں۔سینیٹرز میں پیپلزپارٹی کے تین، پی ٹی آئی کے دو، مسلم لیگ (ن)، اے این پی اوربلوچستان عوامی پارٹی کا ایک سینیٹر بھی شامل ہے۔ارب پتی ٹیکس نادہندگان میں منصور حیات، نیازاحمد جھکڑ، سیف الرحمان، سلیم الرحمان، سردار محمد،مولاناعبدالشکور،مولاناکمال الدین،شکیلہ خالد،فرخ خان،پیر عامر شاہ گیلانی، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سینیٹر پلوشہ محمد زئی،قرۃالعین مری، سینیٹر فیصل سلیم، سینیٹر سیف اللہ ابڑو، سینیٹر ہدایت اللہ خان، پرنس احمد عمرزئی اورسینیٹر نسیمہ احسان شامل ہیں۔ٹیکس نہ دینے والے اراکین پارلیمنٹ میں صنعت کار، کارخانے دار، جاگیر دار، خانقاہوں کے مالکان، برآمد کنندگان، بڑے ٹھیکیدار اور تاجر بھی شامل ہیں۔ اور ان کی ماہانہ آمدنی کروڑوں میں ہے۔ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے جن اراکین سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلی کے نام ٹیکس نادہندگان کی فہرست آئے ہیں۔سیاسی جماعتوں کی قیادت پر فرض ہے کہ انہیں پارٹی عہدوں سے ہٹانے کے ساتھ کسی بھی عوامی عہدے کے لئے انہیں نااہل قرار دیں۔ قوم کا بال بال بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور امور حکومت چلانے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ناقابل قبول شرائط پر قرضے لئے جارہے ہیں ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے مہنگائی کے مارے عوام کا ٹیکسوں کی صورت میں خون نچوڑا جارہا ہے۔ اس معاشی ناانصافی نے عوام کو نظام حکومت اور جمہوریت سے متنفر کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچاس فیصد رائے دہندگان بھی عام انتخابات میں ووٹ پول کرنے گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔ان کا موقف یہ ہے کہ ان کے ووٹ سے کونسی تبدیلی آنی ہے۔ گذشتہ 75سالوں سے انہوں نے ہر سیاسی جماعت کو آزمایا کسی نے اس ملک کے عام آدمی کو استحصال سے نجات دلانے کی کوشش نہیں کی۔ عام آدمی کے اس موقف کو یکسر نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔