سانحہ مری۔۔ذمہ داری فکس کریں۔۔۔تحریر: ظہیرالدین

ارم نامی ڈھائی سالہ کلی شدید سردی کی تاب نہ لاکر ماں کی گود میں آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند کرتی ہے، پانچ سالہ ہادیہ اپنے باپ کی گود میں چند منٹوں بعد ہی آخری سانس لیتی ہے تو ماں باپ پر غشی طاری ہوتی ہے اور 15سال تک کی عمرکے باقی دو بہنوں اور دو بھائیوں پر گزرے ہوئے لمحات کا تصور کرکے روح کانپ اٹھتی ہے اور جسم پر لرزاہٹ طاری ہوتی ہے۔ یہ روح فرسا واقعہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب ملکہ کوہسارمری میں ایک چھوٹی سی موٹر کار کے اندر پیش آئی جو وہاں بلاک ہونے والی ایک ہزار موٹر گاڑیوں میں شامل تھی جبکہ برفباری کی وجہ سے درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گرگئی تھی اور گاڑی کو اسٹارٹ رکھ کر ہیٹر مسلسل چلانے کی وجہ سے گاڑی میں ایندھن بھی ختم ہوگئی تھی۔ ملکہ کوہسار کی بے رحم سردی نے ماں باپ اور چھ بچوں پر مشتمل اسلام آباد کی ایک خاندان کا صفایا کردیا جبکہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی پانچ افرا د پر مشتمل ایک اور خاندان بھی یخ بستہ ہواؤں کی نذر ہوگئی اور خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے چار دوست بھی مری میں اپنی سفر آخرت کا آغاز اپنی الٹوکار سے کردی جو وہاں snowfallدیکھنے گئے تھے۔ موت برحق اور اٹل حقیقت ہے لیکن ان کو جس حالت میں موت آئی، وہ افسوسناک او ر قومی ضمیر پر ایک بوجھ ہے کیونکہ ریاستی انتظامی اداروں کی غفلت،لاپروائی اور inefficiencyسے یہ پیش آیا۔ اس کے برابر افسوسناک بات یہ ہے کہ ماضی کی اس طرح دل خراش سانحات کی طرح یہ سانحہ بھی کچھ دنوں میں میڈیا میں ڈسکس ہونے کے بعد قومی میموری سے ہمیشہ کے لئے ڈیلیٹ ہوگی اور پسماندگان کے لئے زندگی بھر کا روگ بن جائے گی۔
مملکت خداداد پاکستان میں انسانی غفلت کے نتیجے میں حادثات و سانحات کی ذمہ داری کسی پر ‘فکس ‘کرنے کی روایت نہ ہونے اور فی زمانہ اخلاقی قوت سے عاری حکمرانوں کی وجہ سے سانحہ مری جیسے واقعات کا رونما ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ شیخ رشید احمد سمیت چند وفاقی وزراء نے انتہائی آسانی سے اس بات کو اپنے ٹویٹ میں ٹال دیا اور ذمہ داری سیاحوں پر ہی تھوپ دی جوکہ کثیر تعدادمیں اور گنجائش سے ذیادہ تعداد میں مری امڈ آئے تھے۔ وطن عزیز کی 75سالہ تاریخ کی کسی ایک صفحے پر بھی آپ کو یہ لکھا نہیں ملے گا کہ کسی سانحے میں متعلقہ محکمے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کسی وزیر نے استعفیٰ دیا ہو۔ یہاں تو حکومتی حلقے ایسے سانحات کی الٹی سیدھی تاویلیں پیش کرتے ہوئے حکومت کو بری الذمہ قرار دے ڈالتے ہیں جوکہ حادثے میں لقمہ اجل بننے والے بے گناہوں کے پسماندگان کی زخموں پر نمک پاشی سے کم نہیں ہوتی۔ خود ہماری پڑوسی ملک میں ریلوے حادثات میں غفلت قبول کرتے ہوئے لال بہادر شاستری سمیت وزراء کو استعفیٰ دیتے ہوئے ہم دیکھ چکے ہیں۔ وطن عزیز کی مخصوص سیاسی ماحول اورغیر تابناک روایات کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے یہ توقع کرنا ہی عبث ہے کہ وہ اس المناک حادثے کی ذمہ داری سیاحوں پر ڈالنے کی بجائے ریاستی اداروں کو ذمہ دار گردانتے ہوئے چیف منسٹر بزدار سے استعفیٰ لے اور چیف سیکرٹری اور آئی جی پی سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر مری تک افسران کو فی الفور معطل کرکے ان کے خلاف غفلت، لاپروائی اور inefficiencyکے چارجز لگواکر ان کے خلاف انکوائری کا حکم دیتا۔ امریکہ سمیت کسی ترقی یافتہ ممالک میں اگر اکیس افراد اس طرح المناک موت مرجاتے تو وہاں طوفان برپا ہوتا، حکومتیں گرجاتے اور چند گھنٹوں کے اندر بڑے بڑے شخصیات سلاخوں کے پیچھے نظر آتے (یہ بات الگ ہے کہ ان ممالک میں احساس ذمہ داری سے سرشار انتظامیہ ایسے واقعات کو رونما ہونے سے پہلے ہی روک دیتے ہیں)۔ ایک ریاست مدینہ وہ تھا جس میں خلیفہ وقت دریائے دجلہ کے کنارے خارش زدہ کتے کی بے وقت موت کی زمہ داری پیشگی طور پر اپنے اوپر فکس کرتا ہے اور ایک صوبائی گورنر کا بیٹا جب گھوڑ دوڑ کے دوران ایک شہری کو چابک مارتا ہے تو خلیفہ وقت اس کی زمہ داری گورنر پر فکس کرتا ہے اور شہری کے ہاتھ میں چابک دے کر کہتا ہے کہ پہلے اس گورنر کو مارو۔ ریاستی امور کی زمہ داری اپنے اوپر فکس کرنے کی روش نے ریاست کے ایک ایک کارندے کو ایسا ذمہ دار بنادیا کہ کسی بھی گوشے میں غلطی اور غفلت کی گنجائش نہیں رہی جو اس طرح کے افسوسناک سانحات پر منتج ہوں۔ اس ریاست مدینہ کے علمبردار سربراہ حکومت نے اپنی شہ رگ کے قریب واقع مری میں اس المناک سانحے پر بیان جاری کروانے اور غمزدہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی سے آگے کچھ نہ کرسکے کیونکہ وطن عزیز میں اس کی کوئی روایت موجود نہیں جس میں حکمرانوں نے سانحات کی زمہ داری قبول کی ہو یا ان پر زمہ داری فکس کی ہو جن کی غفلت سے یہ سب کچھ رونما ہوا۔
سانحہ مری کے زمہ داروں کا تعین نہایت آسان ہے جن سے ارتکاب غفلت سرزد ہوئی۔ میڈیا کے مطابق 99فیصد گاڑیاں راولپنڈی اسلام آباد کی جڑواں شہر سے گزر کر مری پہنچتے ہیں جن کی تعداد کو براکہوکے ٹول پلازہ پر آسانی سے گنا جاسکتا تھا اور انتظامیہ میں ”حس زمہ داری”ہوتی تو ویک انڈ میں مری میں برفباری کو پیش نظر رکھ کر سیاحوں کی تعداد پر نظر رکھا جاتا۔ مری ضلع راولپنڈی کی ایک تحصیل ہے جس کے انتظامیہ کو سوفیصد اندازہ ہونا چاہئے کہ مری میں بیک وقت کس تعداد میں اور کتنی گاڑیوں میں جاسکتے ہیں جس میں موٹر گاڑیوں کی ٹریفک بھی رواں دواں رہے۔ دوسری طرف کے پی کے گلیات کی باونڈری پر گاڑیوں پر نگاہ رکھا جاتا تو ویک انڈ پر سنو فال کا دلفریب منظر دیکھنے کے متمنی سردی سے ٹھٹہر ٹھٹہر اپنی قیمتی جانیں یوں فرشتہ اجل کے حوالے نہ کرتے۔ ایک ہزار سے بھی زیادہ گاڑیوں کا بلا روک ٹوک مری میں داخل ہونا اور مکمل پہیہ جام کی صورت حال کا پیدا ہونا اور ان گاڑیوں میں پھنسے ہوئے بچوں اور خواتین کو ان کے حال پر چھوڑنا شدید بد انتظامی اور مجرمانہ غفلت ہی کا شاخسانہ ہے جو ناقابل معافی ہے اور یہ قومی المیہ سے کسی طور پر کم نہیں۔ وطن عزیز میں بدانتظامی کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ جب تک کوئی حادثہ رونما نہ ہو اور حالات نارمل ہوں تو اعلیٰ حکام ڈیلی سیچویشن رپورٹ بھی پورا پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے اور یہ ‘شان افسرانہ’ ہماری تباہی کا اصل محرک ہے۔ اگر لاہور میں بیٹھا چیف سیکرٹری راولپنڈی میں کمشنر سے اور وہ چند قدم فاصلے پر ڈی سی سے مری کی صورت حال کا ایسے ہی پوچھ لیتا تو آج اکیس جانیں یوں مٹی کے نیچے نہ جاچکے ہوتے جن کا قصور نظارہ فطرت کے لئے نکلنا تھا۔ جب تک منتخب قیادت ایسے سانحات میں ایک بولڈ اور انقلابی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرتی اور ان داروں کو سامنے لاکر سامان عبرت نہ بنائے جاتے، خاندان کے خاندان اپنی ناکردہ سزا پاکر معدومیت کی سمندر میں گرتے رہیں گے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔