سانحہ مری ۔۔۔تحریر :محمد شریف شکیب

وفاقی دارالحکومت سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع معروف سیاحتی مقام ملکہ کوہسار مری میں شدید برفباری، ٹریفک جام، پناہ کی جگہ نہ ملنے،شدید سردی، ہوٹل مالکان،انتظامیہ اورمقامی لوگوں کی بے حسی کی وجہ سے در درجن قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔محکمہ موسمیات اور پی ڈی ایم اے نے بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل الرٹ جاری کردیا تھا۔ شدید برفباری کے پیش نظر سیاحوں کو مری، گلیات، کاغان، ناراں، مالم جبہ، کمراٹ اور دیگر سیاحتی مقامات کی طرف نہ جانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ پولیس کی طرف سے بھی ہر چیک پوسٹ پر سیاحوں کو موسم کی شدت اور رش کی وجہ سے مری کی طرف نہ جانے کی ہدایت کی گئی تھی مگر برفباری کا لطف اٹھانے کے شوق میں سیاحوں نے خطرات کی پروا کئے بغیر اپنا سفر جاری رکھا۔ بتایاجاتا ہے کہ مری میں بہ یک وقت پچاس ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہے تاہم پنجاب حکومت کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ 62ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔پارکنگ کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ گاڑیاں طویل قطاروں میں سڑکوں پر ہی کھڑی رہیں۔ جب برفانی طوفان کی وجہ سے یہ گاڑیاں سڑک پر ہی پھنس گئیں تو کچھ لوگ گاڑیوں سے نکل کر ہوٹلوں میں ٹھہرنے کی کوشش کی۔ سیاحوں کے مطابق ہوٹل مالکان نے ڈبل بیڈ کمرے کا کرایہ بیس ہزار اور چار بیڈ کمرے کا چالیس ہزار طلب کیا۔ لوگ اتنے بھاری کرائے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ہوٹلوں میں بجلی بھی نہیں تھی اس وجہ سے لوگوں نے گاڑیوں کے اندر ہی رات گذارنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے شیشے چڑھاکرہیٹر آن کردیئے۔باہر برفباری اور شیشے بند ہونے کی وجہ سے کاربن مونوآکسائیڈ گیس گاڑی میں ہی بھرنے لگی۔ اس بے ذائقہ گیس نے چند گھنٹوں کے اندر گاڑی میں بیٹھے لوگوں کو بے ہوش کردیا اور اسی مدہوشی کے عالم میں وہ موت کی وادی میں اتر گئے۔ برفانی طوفان کے دوران کچھ لوگوں نے مدد کے لئے اپنے رشتہ داروں اور انتظامیہ کو بھی پکارا مگر پولیس اور انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے پیشگی تیاری کرنا ہمارے قومی مزاج کے خلاف ہے۔ واقعہ رونما ہونے کے بعد ہم رونادھونا اور لکیر پیٹنا شروع کردیتے ہیں سانحہ مری کے بعد بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ہائی وے پولیس، مقامی پولیس، سیکورٹی اہلکار، محکمہ موسمیات والے، این ڈی ایم اے اور دیگر ادارے میڈیا پر تباہی کے مناظر دکھائے جانے کے بعد اپنے وجود کا ثبوت دینے کے لئے متحرک ہوگئے۔ اس مرحلے پر ملک کی سیاسی قیادت کا طرز عمل نہایت مایوس کن اور افسوسناک تھا۔قومی سانحے پر بھی یہ لوگ اپنی سیاسی دکان چمکانے کی کوشش کرتے رہے۔ حزب اختلاف والے حکمرانوں کو کوستے رہے اور حکمران اپنے کارنامے گنتے اور متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہے۔ المناک سانحے میں مری کے لوگوں کا مجموعی رویہ انتہائی افسوسناک رہا۔ بتایاجاتا ہے کہ ٹائروں پر چڑھانے کی زنجیریں پانچ پانچ ہزار میں فروخت ہورہی تھیں۔ چھوٹی گاڑی کو دھکا دینے کے تین ہزار اور بڑی گاڑی کے مالک سے پانچ ہزار وصول کئے جاتے تھے۔ ہوٹل میں چائے کی ایک پیالی پانچ سو روپے میں فروخت ہورہی تھی۔ کسی نے خون جمادینے والی سردی سے بچانے کے لئے سیاحوں کو مدد کی پیش کش نہیں کی۔7دسمبر 2016کو حویلیاں فضائی حادثے کے بعد مری کا سانحہ اپنی نوعیت کا دوسرا المیہ تھا جس نے پورے ملک کی فضاء سوگوار کردی۔جو والدین اپنے جگر گوشوں کو کھودینے پر غم و الام کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ان کا دکھ ہر پاکستانی محسوس کر رہا ہے اور ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ پنجاب حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لئے کمیشن کے قیام اور غمزدہ خاندانوں کے لئے معاوضے کا اعلان کیاہے۔لیکن جانے والے تو سب کو اشکبار چھوڑ کر ابدی نیند سوگئے۔یہ معاوضے ان کا متبادل نہیں ہوسکتے۔ تاہم سانحے میں جن اداروں اور اہلکاروں کی غفلت اور لاپرواہی ثابت ہوجائے انہیں قرار واقعی سزا ملنی چاہئے تاکہ غم زدگان کے دلوں کو یک گونہ سکون ملے اور آئندہ ایسے سانحات کا تدارک ہوسکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔