,چترال میں بلدیاتی انتخابات: جوڑ توڑ کی سیاست اور مذہبی جماعتوں کا مستقبل….محمد نبی چترالی
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ سر ہوئے ابھی ایک ماہ کا عرصہ نہیں گزرا۔ شکست و ریخت سے دوچار ہونے والی جماعتوں کے زِخم تازہ ہیں اور کامیابی سے ہمکنار مذہبی جماعت، جمیعت علمائے اسلام بھرپور کامیابی کے بعد اب اگلے مرحلے میں پہلے سے زیادہ پر امید نظر آرہی ہے۔
شکست خوردہ جماعت، پاکستان تحریک انصاف نے اپنی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ “غلط امید وار” کے چناؤ کو ٹہرایا۔ دوسری طرف غیر جانب دار تجزیہ کاروں کے مطابق جمیعت کی کامیابی مختلف حلقوں میں “صحیح کینڈیڈیٹس” کا انتخاب قرار دیا۔ ناکامی و کامیابی کے کئی دوسری وجوہات ہو سکتی ہیں مگر اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ صحیح حلقے میں، ٹھیک اور موزون امیدوار کا کردار ہمیشہ کلیدی ہوتا ہے۔
ایسے میں چترال کی سطح پر یہ سوال بار بار سامنے آ رہا ہے کہ مذہبی جماعتوں (جمیعت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی) کا مستقبل کیا ہوگا؟
کیا مذہبی پارٹیاں چترال میں پہلے بلدیاتی الیکشن جیسا رزلٹ دے پائیں گی؟ کیا ان دو مذہبی پارٹیوں کا آپس میں اتحاد ہوگا؟
کیا مذہبی جماعتیں موزون امیدواروں کا انتخاب کر پائیں گی یا نہیں؟
ان سوالات کے جوابات تقریباً ڈھائی مہینے بعد سب کو مل جائیں گے۔ مگر مستقبل کی ایک دھندلی سی تصویر اب بھی ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ یہ تصویر “جوڑ توڑ” اور “بیک ڈپلومیسی سیاست” سے جڑی ہوئی ہے۔ جوڑ توڑ کی سیاست پاکستان میں بالعموم اور چترال میں بالخصوص کوئی نئی چیز نہیں۔ سب اس سے واقف کار ہیں۔
شہزادہ محئ الدین ایک زیرک اور اعلی پائے کے سیاست دان تھے۔ وہ ہر پارٹی میں اپنے کچھ “چہیتے” رکھتے تھے۔ یہ من پسند افراد فرنٹ میں تو اپنی پارٹی کے خیر خواہ ہوتے مگر بییک ڈور ڈپلومیسی کے طور پر شہزادہ صاحب کے لیے کام کرتے تھے اور ان کی کامیابی کے لئے راہ ہموار کرتے۔ مگر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ جب راز افشا ہوتا تو پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہوتا اور شہزادہ صاحب اپنی جوڑ توڑ کی سیاست میں کامیاب ہو جاتے۔
گزشتہ بلدیات کے آخری مرحلے میں بھی کسی حد تک بیک ڈور ڈپلومیسی کا چل چلاؤ ہوا مگر بجز جزوی کامیابی کے، کوئی خاطر خواہ نتائج نہ دے سکی اور مذہبی جماعتوں کا اتحاد رنگ لایا۔ متحدہ مجلس عمل کے امیدوار نہ صرف ڈسٹرکٹ ناظم کو منتخب کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ اپنے حلقوں میں بھاری اکثریت سے جیت گئے۔
گزشتہ بلدیاتی انتخابات نے جنرل الیکشن کی راہ ہموار کی اور مزہبی جماعتیں اپنا MNA اور MPA منتخب کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ بلدیاتی انتخابات کا ایسا ہی دو رس اثر ہوتا ہے۔
آج ایک بار پھر جوڑ توڑ کی سیاست اور بیک ڈور ڈپلومیسی اپنے عروج پر ہے۔ آزاد اور غیر مذہبی جماعتوں کے جن اُمیدواروں کا اپنا ووٹ بینک نہیں ہے اور ان کی جماعتیں بھی غیر مقبول و بد نام ہو چکی ہیں، انہوں نے بیک ڈور ڈپلومیسی کا سہارا لے رکھا ہے۔ ان کا منشاء ہے کہ مذہبی جماعتوں کی طرف سے ان کے مقابلے میں کمزور اور غیر مقبول امیدوار لائے جائیں جن کا اپنا ووٹ بینک نہ ہو اور پارٹی کا ووٹ بھی تقسیم در تقسیم ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج کل پوری تند و تیزی سے مذہبی جماعتوں کے اندر گروہ بندی میں لگے ہوئے ہیں۔
جوڑ توڑ کی سیاست کے کھلاڑی اپنے من پسند اور “چہیتے” امید واروں کے لیے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ وہ مذہبی جماعتوں کے اندر شگاف ڈال کر مذہبی سیاست سے چھٹکارا حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ اس مہم جوئی میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سرفہرست ہیں۔ ستم دیکھیے۔ یہ دونوں جماعتیں اپنا ووٹ بینک کھو چکی ہیں اور عوام میں بدنام ہو چکی ہیں۔ پی پی پی کے پاس دکھانے کو کچھ بھی نہیں۔ نہ مرکز میں حکومت ہے اور نہ ہی صوبے میں اس کے نام و نشان ملتے ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی بحران کی زد میں ہے۔ وہ مہنگائی کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ بیڈ گورننس اور نا اہلی طرہ امتیاز ٹہرا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ جماعت دوسرے مرحلے میں بھی انہی سنگین نتائج سے دوچار ہوگی۔
اب بال مذہبی جماعتوں کے کورٹ میں ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ مذہبی جماعتیں جوڑ توڑ کی سیاست اور بیک ڈور ڈپلومیسی کے بنے جال میں پھنستی ہیں یا صاف بچ نکلتی ہیں۔ اپنا سابقہ ریکارڈ برقرار رکھ پاتی ہیں یا پھر بھیانک نتیجے سے دو چار ہو کر آنے والے جنرل الیکشن کی دیوار گریہ کی خشت اول رکھ دیتی ہیں۔
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ