خوشنودی…تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک

خوشامد۔۔۔ خوشنودی۔۔۔
مکھن ماری۔۔۔ دور جدید کے ادب کے مطابق۔۔۔ چمچہ گری۔۔۔ ہماری ثقافت کا بہت ہی پُرانا اور کاریگر۔۔۔ فارمولا رہا ہے۔۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اجکل کے دور میں یہ گُر۔۔۔ نسخہ کیمیا۔۔۔ کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ اور ہم لوگ۔۔۔ بچے۔۔۔ کی پیدائش سے لے کر بوڑھاپے تک مختلف حیثیت سے اس کی۔۔۔خوشامد۔۔ میں لگے رہتے ہیں۔۔۔۔ سکول کے استاد سے لیکر یونیورسٹی کے پروفیسر تک سرکاری چپڑاسی سے لیکر سیکرٹیری تک۔۔ ویلج کونسل کے معمولی ممبر سے لے کر صدر وزیر اعظم تک خوشامدیوں کا ایک جم غفیر ہے جو۔۔۔ مکھن ماری۔۔۔ چمچہ گری۔۔۔ میں سر گردان نظر آتے ہیں۔۔۔ یہاں تک کہ یہ فعل خبیس۔۔۔۔ ہمارے مدرسوں مساجد کے علماء اور ایمہء کرام تک میں سرایت کر چکا ہے۔۔ کام نکالنا ہو تو۔۔۔۔ رشوت۔۔ کو۔۔۔ تحفہ۔۔۔ نذرانہ۔۔۔ ہدیہ۔۔۔ کے نام سے بدل کر کام نکالنے کے راستے بنائے جاتے ہیں۔کسی بندہ مجبور کے پاس یہ۔۔۔ کارآمد ہتھیار۔۔۔ دستیاب نہ ہوں تو وہ اپنے۔۔۔ عمرو عیاری۔۔۔ زنبیل سے۔۔۔۔ خوشامد۔۔۔ مسکہ ماری۔۔۔چمچہ گری۔۔۔ کے لوازمات باہر نکال دیتا ہے۔۔مسکہ ماری کا پہلا شکار ہمارے گراٹ گرنٹ پا۔۔۔ حضرت شیطان۔۔۔ کے ہاتھ ہوکے اس زمین پر جلوہ افروز ہوئے تھے۔تب سے ان کی اولاد میں سے بہت ہی کم لوگ اس۔۔ قبیح فعل۔۔۔ سے خود کو بچا پائے ہیں ورنہ یہ ایسی بیماری ہے جو۔۔۔ سر چھڑ۔۔۔ کے بولتا ہے۔۔ سوشل میڈیا اور فیس بک کی دنیا نے تو اس فن کو۔۔۔۔ چار چاند۔۔۔ ہی لگا دئیے ہیں۔۔۔??۔۔۔?????? اور انگوٹھے کی نشان نے زرے کو پہاڑ بنادیے ہیں اور اس کھیل نے قومی وقار عزت اور تشخص کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔۔۔ دوسروں کی خوشامد میں ہم کب سے۔۔۔۔ غرقاب۔۔۔ ہیں اس کا اندازہ ایک سیاسی کتب کے مطالعہ کے دوران ہوا کہ۔۔۔ بھٹو مرحوم جیسے زور اور شخص بھی یہ کارنامہ انجام دے سکتا ہے تو آج کے۔۔۔۔بالشتیے سیاست دان اور ملازم کیا کیا گل کھلا سکتے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے ایک سرکاری دورے پر۔۔۔۔ مرحوم ذالفقار علی بھٹو۔۔۔ امریکہ میں تھے کہ پاکستانی سفارت خانے کی ایک تقریب میں امریکن وزیر خارجہ۔۔۔۔ ہنری کسنجر۔۔۔۔ کو دعوت دی جو اس نے قبول کی۔۔۔ بھٹو صاحب بہت خوش ہوئے اور ڈنر کی تقریب سجانے کے احکامات صادد کیے۔۔۔۔ سفارتی اور کابینہ کے اراکین نے۔۔۔۔ امریکن وزیرخارجہ کے شایانشان استقبال اور ڈنر منیو بنانے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کے مشورے دینے لگے۔۔ وائٹ ہاوس کے سابق باورچیوں سے صدر امریکہ کے پسندیدہ خوراک کی لسٹ منگواییں گئیں۔۔ صدر امریکہ کے پسندیدہ رسٹورانٹ سے معلومات اکھٹے کی گئیں۔۔۔۔ سفارت خانوں اور دیگر تقریبات میں وزیرخارجہ نے کیا۔۔۔۔ تناول۔۔۔ فرمایا تھا انہیں شاٹ لسٹ کیا گیا ان کے دوستوں سے معلومات لی گئیں کہ دوروں کے دوراں اس نے کس۔۔۔۔ڈش۔۔۔۔ پر واو۔۔۔ وٹ اے ٹست کہا تھا۔۔۔عرب۔یورپ۔۔۔ افریقہ برصغیر کے کونسے ایسے خوراک ہیں جنہیں۔۔۔۔ چک۔۔۔۔ کر وزیرخارجہ واو کہہ سکتے ہیں غرض سینکڑوں۔۔۔۔ طعام۔۔۔۔ کا ایک طویل ترین لسٹ مرتب ہوا۔ گھنٹوں کی مغز خوری کے بعد۔۔۔۔ منتخب خوراک۔۔۔۔ شاٹ لسٹ کیے گئے۔بھٹو صاحب نے قمیض کے بٹن کھول لیے پشانی سے ٹپکنے والے پسینے صاف کیے اور ساتھیوں کو اس عظیم کارنامے پر۔۔۔۔ فاتحانہ۔۔۔انداز سے دیکھا اور شاباشی دی۔۔۔۔ ناگہان ایک۔۔۔۔ مکھن مار۔۔۔ نے مسکہ لگایا۔۔۔۔پی ایم صاحب۔۔۔۔

کیوں نہ۔۔۔۔ کہیں سے۔۔۔۔ تازہ کالے بٹیر۔۔۔ منگوالیے جائیں جو۔۔۔۔۔۔جنتیوں۔۔۔۔ بنی اسرایلیوں۔۔۔ کی خوراک اور تمام خوراک کی جان ہے۔۔۔۔۔ بھٹو۔۔۔۔ جھومتے ہوئے اٹھے اور چیخ کر کہا۔۔۔۔ دیٹ از دے سیجشن۔۔۔۔ اب برف پگھل سکتا ہے امریکہ اور پاکستان کے بھیج۔۔ اب آگیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔مشورہ دینے والے کو۔۔۔۔22 گریٹ۔۔۔۔ کی گالیاں سنا دیں کہ کم بخت نے یہ زرین مشورہ اتنی دیر سے کیوں دیا۔۔۔۔ گالی کھانے والے نے سینے پر ہاتھ رکھ کر۔۔۔۔ تسلیمات۔۔۔ بجا لائے کہ بھٹو صاحب نے مجھے۔۔۔۔ گالی کے گلدستے۔۔۔۔ سے شرف یاب کیا۔۔۔۔ اب دن ہی کتنے رہ گئے تھے۔تمام سفارتی عملہ بھٹو سمیت۔۔۔۔ کالے بٹیر۔۔۔ کی تلاش میں امریکہ بھر میں ناکام پھرے۔ رات دوبارہ۔۔۔۔ زیرک دماغوں۔۔ میسر چھوڑ لیے کہ کیسے اور کہاں سے کالے بٹیر مل سکتے ہیں۔
ایک سیانے مشیر نے مشورہ دیا۔۔۔۔۔ سر وقت بہت کم رہ گیا ہے بہتر ہے کہ اپ اپنی جہاز پاکستان روانہ کریں کہ کراچی سے جتنا چاہے لاسکتا ہے۔۔۔۔ بھٹو صاحب نے ایک۔۔۔ سونامی ٹایپ۔۔۔۔ گالی کے ساتھ۔۔۔۔ مشیر کا زوردار بھوسہ لیا اور۔۔۔۔ سی ون تھرٹی۔۔۔۔ طیارے کو کراچی بیجنے کے احکامات صادر کیے۔۔۔۔ دوسرے دن۔۔۔۔۔ دوہزار۔۔۔۔ کالے بٹیر۔۔۔ لیے طیارہ امریکہ لینڈ کیا تو خوشی کے شادیانے سفارت خانے میں بجائے گئے۔۔۔ لیکن سفارت خانے کے باورچی نے۔۔۔۔ کالے بٹیر۔۔۔ بروسٹ کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کی کہ اس کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ دوسری بار۔۔۔۔۔ عوامی لہو۔۔۔۔ کے اندھن سے لیس ہوکر طیارہ کراچی پہنچا اور شاہی باورچی کو لے کر امریکہ اُترا تو اسی شام امریکی وزیرخارجہ کے اعزاز میں ڈنر ہونا تھا۔۔۔سب کے چہرے لٹکے ہوئے تھے اچانک۔۔۔۔ باورچی کی آمد کا اعلان ہوا بہت سے جام ٹکرائے گئے اور حالت بے خودی میں۔۔۔۔۔ سجدہ شکر۔۔۔ بھی بجالایے گئے۔۔۔ سفارتی عملہ وزرا سمیت باورچی کی مدد میں مگن رہے۔۔۔۔ امریکن صدر کی آسانی کے لیے۔۔۔۔ کالے بٹیر۔۔۔۔ کا شجرہ جنت سے وادی سینا کی صحرا نوردی تک کے قصے اس میں موجود وٹامنز،لحمیات وغیرہ کے۔۔ بریف نوٹ۔۔۔ تیار ہوئے۔۔۔
آخر وہ مبارک گھڑی اپہنچی کہ پاکستان ہاوس میں۔۔۔۔ہنری کسنجر نے۔۔۔۔ قدم رنجہ فرمایا۔ اور بھٹو کو مخاطب کر کے کہنے لگے” مسٹر پرائم منسٹر میں بہت مصروف ہوں اپ لوگوں کو صرف پندرہ منٹ وقت دے سکتا ہوں۔۔۔ سب نے کھانے کے میز پر نگاہیں گاڑ دیں اور منتخب۔۔۔۔ مینو۔۔۔۔ وزیرخارجہ کے آگے پیش کیے۔۔۔۔جو اس نے پڑھے بغیر ہی گلاس کے نیچے رکھ دی۔۔۔۔۔ کالے جنتی بٹیروں کے ٹرے ان کے سامنے لائی گئی تو۔۔۔۔ نو تھنکس۔۔۔۔ کہا اور۔۔۔۔ سلاد۔۔۔ کے دو ٹکڑے اُٹھائے اور۔۔۔۔ بھٹو۔۔۔۔ کا حا ل احوال پوچھا ہی تھا کہ ان کے سیکرٹری نے اُن سے دریافت کیا سر ہمارے لیے کیا حکم ہے۔۔۔ کسنجر۔۔ نے گھڑی گمائی اور بھٹوسے کہا۔
تھینک یو مسٹر پرائم منسٹر۔۔۔۔ وی ویل میٹ سون۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے اُٹھے اور ہاتھ ہلاتے ہوئے رخصت ہوئے۔
یہ تھی۔۔۔۔ خوشامد اورخوشنودی کی جمہوری کہانی۔جو سب کے سب اللہ اور اس کے رسول کے لائے ہوے نظام سے بغاوت اور بے زاری کے سبب ہمارے گلے کا ہار بنا ہوا ہے۔ آج بھی مدینے کی ریاست کا۔۔۔۔ امیر۔۔۔۔ واشنگٹن سے کسی۔۔۔ کال۔۔۔ کے۔ انتظار میں گھلا جارہا ہے۔اور اس۔۔۔۔ نظام۔۔۔ کے لا گو کرنے سے ہچکچا رہا ہے جو۔۔۔۔ دنیا اور اخرت میں۔۔۔ سر اٹھا۔۔۔ کے جینے کا درس دیتا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔