دھڑکنوں کی زبان…”اگر ہمارے ادارے آزاد ہوتے “…محمد جاوید حیات

آزاد ملک اور آزاد قوم کی نشانی ہوتی ہے کہ اس ملک میں ادارے آزاد ہوتے ہیں ۔ہر ادارے کا اپنا دائرہ کار اور دائرہ اختیار ہوتا ہے اس کے اندر وہ کام کرتا ہے۔اگر کوئی غلط کرے تو ملک کا آزاد مقننہ اور آئین ہوتا ہے جس کے سامنے وہ جوابدہ ہوتا ہے اگر کسی کوتاہی کا ارتکاب کرے تو اس کا انجام برا ہوتا ہے اس وجہ سے ہر ادارہ کچھ اچھا کرنے کے اصولوں کا پابند ہونے اور کارکردگی بہتر بنانے کی تگ و دو میں ہوتا ہے ۔اگر خدا نخواستہ یہ ادارے مفادات اور ذاتی اعراض و مقاصد کے شکار ہوجائیں ان پر کسی ذات ،کسی فرد یا کسی پارٹی ادارے کا اثر ہوجایے تو ادارے اپنا وجود کھو دیتے ہیں ملک تباہ و برباد ہوتا جاتا ہے ۔۔تاریخ مطلق العنانوں کا یہی انجام بتاتی ہے ۔اسلام میں فرد کے حقوق اور رائے کا احترام ہے اس لیے اسلام میں ادارے اپنے دائرہ کار میں آزاد اور ریاست کے سامنے جوابدہ رہے ہیں ۔دنیا کے جمہوری ملکوں میں ادارے نسبتا آزاد ہیں اس لیے وہاں پر ترقی امن اور خوشحالی ہے ۔عوام میں بے چینی اور مایوسی نہیں ۔وہ پولیس تھانہ انصاف کی امید پہ جاتے ہیں وہ کچہریوں میں انصاف ڈھونڈنے جاتے ہیں انصاف ملتا ہے۔ ان کی کمپنیوں میں صداقت سے کام ہوتا ہے ۔ان کے تعلیمی ادارے آزاد ہیں ۔ان کے بلدیہ میں قانون ہے ان کے بازاروں گلی کوچوں میں قانون ہے ۔آخر ہمارے ہاں بھی ایسا ہوتا تو ہم مطمین ہوتے ۔ایک چھوٹے ٹھیکہ دار نے بتایا ۔کہ میرے پاس ایک پل کا ٹھیکہ تھا سٹیمٹ پچاس لاکھ کی تھی ٹنڈر چالیس فی صد نیچے آیا پھر کمیشن وغیرہ ادا کرنے کے بعد پیسے دس لاکھ رہ گیے ۔۔میں نے پل بنایا ۔میں نے ٹھیکہ دار سے کوئی استفسار نہیں کیا اس نے اپنی مزدوری لی ہوگی پانچ لاکھ مزدوری لی ہوگی پانچ لاکھ خرچ کر چکا ہوگا۔۔اب ملک خداداد میں پچاس لاکھ کا پل پانچ لاکھ میں بنے گا ۔ ملک میں تعمیرات کا بہت بڑا ادارہ ہے ۔وہ آخر کس کے سامنے جوابدہ ہے ۔ محکمہ تعلیم کے اپنے قوانین اور اصول ہوتے ہیں ۔محکمے کے کسی سکریٹری کو، ڈایریکٹر کو، ڈی ای او کو ،پرنسپل کو کسی کی ڈیکٹیشن نہیں لینی۔وہ اپنا کام خوب جانتا ہے اگر وہ کچھ برا کرے تو ریاست کے قانون کے سامنے جوابدہ ہے ۔ ملک کی پولیس اپنا کام کرے کوئی باثر طاقت تھانے میں کال نہ کرے ۔جنگلی حیات کا اپنا قانون ہو ۔محکمہ آراضی اور آپاشی اپنے دائرے میں رہیں ۔محکمہ جنگلات اپنا قبلہ رکھے ۔ملک کے محافظوں کی اپنی Identity ہو ۔اسی کو ریاست کہتے ہیں ۔ہمارا تلخ تجربہ ہے اگر کسی کو محکمہ تعلیم میں کام پڑے تو وہ سیاسی لیڈر کے پاس جاتا ہے کوئی بیگ ڈور ہے سایڈ چینل ہے دھندے والوں کے کام نکلتے ہیں ۔ایک مرحلے پر ذمہ دار آفیسر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے کہیں سے کسی حکمنامے کے انتظار میں ہوتا ہے ۔۔اگر ہسپتال میں ڈاکٹر کے پاس جانا ہو تو پہلے کسی اور دروازے پہ دستک دینی ہوتی ہے ۔کسی کا کوئی کام ادارے میں براہ راست نہیں ہوتا کسی زنجیر کو کھینچنی پڑتی ہے ۔یہی ریاست کی ناکامی ہے۔ ہمارے بڑے ڈنکے کی چوٹ پر یہاں تک کہتے ہیں کہ ملک آئی ایم ایف ورلڈ بنک وغیرہ کے ایجنڈے پر ہے اگر ایسا ہے تو ہم۔کس کھاتے میں ہیں ۔بحیثیت قوم ہماری حیثیت کیا ہے ؟۔اس پر ایک مخلص غیر جانبدار اور قوم کا درد محسوس کرنے والا لیڈر ہی غور کر سکتا ہے اس کے لیے بڑی قربانی اور بڑا اقدام اٹھا سکتا ہے ۔۔کسی مصلحت اور مفاہمت کا شکار ایسا کچھ نہیں کر سکتا ۔اگر عدالت میں جج غلط فیصلہ کرے تو اس کو اسی وقت سرعام لٹکانا ہوتا ہے ۔کسی پولیس سے دانستہ غلطی ہوجایے تو اسے سلاخوں کے پیچھے ہونا ہوتا ہے۔ اگر کوئی استاد فرائض منصبی سے غفلت برتے تو اس کو اسی وقت فارغ کرکے قوم کے نونہالوں کا مستقبل بچانا ہوتا یے ۔ کسی تعمیراتی کمپنی کسی ٹیھکہ دار سے کوتاہی ہوجایے تو اس کا چمڑا اتارناہو تا ہے ۔کرپشن کی سزا سرعام موت ہو ۔۔ان سب اقدامات کے لیے ایک نڈر فگر کی ضرورت ہوتی ہے جو قربانی دینا جانتا ہو ۔خلاصہ کلام ہمارے ادارے آزاد نہیں ہیں ۔یہاں مافیاز کی حکمرانی ہے یہاں تک کہ ہنر کی قدر نہیں ہوتی ۔ایک ہنرور کھیلاڑی اپنامقام نہیں بنا سکتا ۔ایک محنتی استاد اپنا مقام کھو دیتا ہے ایک فرض شناس پولیس آفیسر گمنام ہوجاتا ہے ایک شہید کے خون کی قدر نہیں ہوتی ۔ ملک خداداد آرزووں کی سر زمین ہے ۔یہاں پر ہر ایک کو وفادار مخلص اور محنتی ہونا چاہیے ۔یہ اس وقت ممکن ہے جب اس کی محنت اور خلوص کی قدر ہو اس کو اس کا مقام دلایا جایے ۔جب اس کی حوصلہ افزائی نہ ہو تو وہ مایوسی اور بے چینی کا شکار ہوجاتا ہے ادارے کے اندر وہ اپنی من مانی کرتا رہتا ہے اس کو جینا ہوتا ہے اپنے جیون کو ممکن بنانے کے لیے اس کو وہی راستہ اختیار کرنا ہوتا ۔۔اس کی محنت کی اہمیت نہیں ہوتی تو وہ مصلحت کا سہارا لیتا ہے ۔آفیسر کی خوشنودی کا سوچتا ہے اور خوشنودی کا سلسلہ بہت آگے تک جاتا ہے یہاں تک کہ ہماری منزل آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک تک پہنچ جاتا ہے ۔اگر ہمارے ادارے آزاد ہوتے تو ہم آزاد ہوتے ۔۔ہمارے آفیسروں کا سٹیٹس بحال ہوتا ہمارے ماتحتوں کا اعتماد بحال ہوتا اور ہم آزاد فضا میں سانس لیتے ۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔