شکوہ ارباب وفا…محمد شریف شکیب

وزیراعظم عمران خان نے شہریوں کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے اس کی اپنی بھی رات کی نیندیں اڑگئی ہیں۔ملک کے اعلیٰ ترین انتظامی عہدے پر موجود شخص کو اگر پھولوں کی سیج پر نیند نہیں آتی تو خالی پیٹ فرش پر سونے والوں کی کیاحالت ہوتی ہوگی اس کا تصور بھی رونگھٹے کھڑے کرنے والا ہیں۔اگرچہ ہمارے وزیراعظم بھی لاڈ پیار میں پلے ہوئے ہیں انہوں نے دنیا کی بہترین درس گاہ سے تعلیم حاصل کی ہے اور کرکٹ کی دنیا پر بھی راج کرتے رہے ہیں۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے دل میں عوام کا درد موجود ہے۔ یہ شاید عوام کی اپنی شومئی قسمت ہے کہ حکومت انہیں جتنا ریلیف دینا چاہتی ہے ان کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں۔گذشتہ تین سالوں میں حکومت نے عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے کیاکچھ نہیں کیا۔ کورونا سمارٹ لاک ڈاؤں سے متاثر ہونے والے محنت کشوں کو احساس کفالت پروگرام کے ذریعے کئی مہینوں تک بارہ ہزار روپے فی خاندان امداد دیتا رہا۔ گھر بنانے کے لئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کر رہا ہے۔ مفت علاج کے لئے صحت کارڈ پروگرام شروع کیا ہے۔ نادار طلبا کے لئے سکالرشپ سکیم شروع کی ہے۔ کسانوں کے لئے خصوصی کارڈ جاری کئے جارہے ہیں کم آمدنی والے خاندانوں کو راشن کی خریداری پر سبسڈی دی جارہی ہے۔دوسری جانب خفیہ ہاتھ اس ریلیف پروگرام کو بے نتیجہ بنانے کے لئے مسلسل متحرک ہے۔ کبھی بجلی کی قیمت بڑھائی جاتی ہے۔کبھی گیس کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں۔ کبھی پٹرولیم مصنوعات کے دام بڑھاکر عوام کی مشکلات میں اضافہ کیاجاتا ہے۔ شوگر مافیا نے چینی کی قیمت 170روپے کلو تک پہنچا دیا تھا۔حکومت نے بڑی مشکل سے اس کے دام گرادیئے تو گھی اور پکانے کے تیل کی قیمتوں کو 125روپے کلو سے اٹھا کر 430روپے کلو تک پہنچا دیا گیا۔ جب خفیہ ہاتھوں تک یہ خبرپہنچی کہ دال اور سبزیاں مہنگی ہونے کی وجہ سے غریبوں نے مرغی کا گوشت کھاکر گذارہ کرنا شروع کردیا ہے تو چکن کی قیمت 110روپے کلو سے بڑھا کر 260روپے کلو کردی گئی۔ وزیر اعظم سے ہمدردی رکھنے والوں کا خیال ہے کہ کورونا کی وباء بھی انہی خفیہ ہاتھوں کی پھیلائی ہوئی ہے۔ وباء کی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی لہر سے لاک ڈاؤن لگائے بغیر ہم سرخرو ہوکر نکلے تو اومی کرون کے نام سے پانچویں لہر دوڑائی گئی۔ تاکہ کاروبار، ٹرانسپورٹ، شادی ہال بند ہوجائیں اور عوام خوشیاں منانے سے محروم رہ جائیں۔اپنی تقریر کے دوران وزیراعظم نے شکوہ کیا کہ وہ ٹیلی فون پر عوام سے جو باتیں کر رہے ہیں یہی باتیں پارلیمنٹ میں کہنے چاہئے تھیں مگر وہاں این آر او کے متلاشی بیٹھے ہیں وہ بات کرنے ہی نہیں دیتے۔وزیراعظم کا یہ شکوہ بالکل بجا ہے۔عوام نے اپنے مسائل قومی ایوانوں میں اجاگر کرنے اور ان کا حل نکالنے کے لئے لوگوں کو منتخب کرکے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھیجا ہے۔ اول تو وہ اسمبلیوں میں آتے ہی نہیں، کورم کی کمی کے باعث اسمبلیوں کے اجلاس ملتوی ہونا اور سپیکروں کا اظہار برہمی معمول بن گیا ہے۔ جب اپنے نجی کام نمٹا کر ایوان میں آتے بھی ہیں تو شورشرابہ، نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی کرنے سے باز نہیں آتے۔ملک کے صدر اور وزیراعظم کو بولنے نہیں دیا جاتا تو ایک عام ایم این اے اور ایم پی اے کی کیاحالت بنائی جاتی ہے۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وزیراعظم نے اپنے سیاسی مخالفین کو خبردار کیا کہ اگر انہیں حکومت سے نکالا گیا تو ان کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ وہ سڑکوں پر نکل آیا تو مخالفین کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔ اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور کسی بھی جماعت سے زیادہ ہے۔ انہوں نے 126دنوں تک ڈی چوک پر دھرنا دے کر ثابت کیا ہے کہ وہ سڑکوں پر راج کرنے کا فن جانتا ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کوئی بڑی اپوزیشن جماعت بھی حکومت کی چھٹی کرانے کی روادار نہیں۔ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ موجودہ عالمی بحران کا حل کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کا مولانا کا مطالبہ قبول کرنے سے معذرت کی ہے۔لانگ مارچ اور احتجاجی مظاہروں کے پروگرام صرف وقت گذاری کے لئے ہیں۔ جب تک کورونا کا عالمی بحران نہیں ٹلتا۔ موجودہ حکومت کو کوئی سیاسی خطرہ نہیں۔ اس لئے وزیراعظم کو اپوزیشن کے الزامات، بیانات، احتجاج، دھرنوں اور لانگ مارچ کی دھمکیوں سے پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔انہیں مہنگائی سے عوام کو ریلیف پہنچانے کے نئے طریقوں پر غور کرنا ہوگا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔