دھڑکنوں کی زبان…”سوات موٹر وے”…محمد جاوید حیات

آج پہلی بار سوات موٹر وے سے سفر کیا۔سفر خوشگوار ٹھرا ۔۔تمرگرہ سے آگے کوسٹر میں بیٹھا ۔۔ایک بزرگ استاد گاڑی چلا رہا تھا ۔میں نے بڑے ادب سے ان کے کان میں کہا استاد ۔۔کتنے سالوں سے اس طرح راہ نورد ہو ۔۔کہا عمر پنساٹھ سال ہے اس میں سے بیس نکالو میں بیس سال کی عمر میں گاڑی لے کے روڈ وں کی خاک چھاننے لگا تھا ۔میں نے کہا تو ڈرایونگ کی عمر پنتالیس سال ہوگئ ہاں بیٹا ۔۔اسم شریف استاد جی ۔۔۔محمد اسلم ۔۔
سفر خوشگوار تھا دورویہ سڑک ۔۔کشادہ اور سیدھا ۔استاد جی سٹیرنگ گماتا تک نہیں تھا ۔ میں نے کہا موٹر وے پہ سفر کیسا لگتا ہے ۔۔۔اس نے مسکرا کر کہا پھر سے جوان ہوگیا ہوں اللہ بنانے والوں کا بھلا کرے ۔۔ایک بار پھر ملک خداداد پہ پیار آگیا ۔شیر شاہ سوری نے پشاور تا بنگال دورویا سڑک بنایا حالی نے تڑپ کر ان کا ذکر کیا تاریخ میں امر ہوگیا ۔۔اس دو دن کی زندگی میں جس کو اقتدار ملا ہے کچھ کر کے گیے ہیں تو تاریخ کے دامن میں امر ہیں ۔کسی نے نہر کھود دی نہر زبیدہ ۔۔کسی نے تاج محل بنایا ۔کسی نے یونیورسٹی بنائی ملک خداداد میں کسی نے ڈیم بنایا یہ اس کا کارنامہ ہے کسی نے اٹم بم کا تصور دیا ہاتھ خود بخود دعا کو اٹھتے ہیں ۔کسی نے موٹر وے بنایا ہزار اختلاف سہی شاباش کہنے کو دل کرتا ہے ۔لیکن جس نے کچھ نہیں بنایا اقتدار کے نشے میں وقت گنوا دیا ان کے نام و نشان مٹ گئے ۔شاید تاریخ رٹنے والوں کو بھی وہ یاد نہ رہیں ۔۔
سوات موٹر وے بھی ایک یاد گار ہے مجھے وزیر اعلی محمود خان پر بہت پیار آیا اس کامقام و احترام دل میں جاگزین ہوا ۔تین سوال اٹھے ۔تین خواب دل میں سر اٹھایے ۔۔پہلا سوال یہ کہ اگر بندہ کچھ کرنے کا عزم کرے تو دو سالوں کی مختصر مدت میں سحرا کو گلزار ،پہاڑ کو سونا اور ویرانے کو جنت بنادے ۔۔سوات موٹر وے اس کی زندہ مثال ہے محمود خان میں پٹھانوں کی روایتی غیرت جاگ اٹھی تھی شاید ۔ ناممکن کو ممکن بنانے کا عزم ۔۔۔دوسرا سوال اگر ٹرخانا لولی پاپ کھلانا سبز باغ دکھانا ہو تو اپر چترال میں بونی تورکھو روڈ اس کی مثال ہے ۔۔تیس کلو میٹر ۔بس پندرہ فٹ چوڑی لیپ ٹاپنگ ۔۔دس سال ہوگئے ایک کلو میٹر بھی پورا نہیں بنی ۔تیسرا سوال یہ ملک ہمارا ہے یہ قوم ہماری ہے اس کا مستقبل ہمارا ہے یہ پیسے اس قوم کے ہیں ۔حکمران اس کی فکر کیوں نہیں کرتے ۔۔سوات موٹر وے بنتا ہے اس پر حکمران کی توجہ تھی محمود خان قوم کے محسن ہیں ۔اس محسن سے ایک خواب جڑا ہوا ہےیہ کہ یہ موٹرے وے آگے چترال شندور گلگت تک جایے گا ۔اس سے ایک خواب جڑا یے کہ قوم کے ہیسے درست ہاتھوں میں اس طرح استعمال ہوں گے ۔اس سے ایک خواب جڑا ہے کہ اس ملک کی تعمیر ممکن ہے اگر غیرت والے حکمران مل جائیں ۔۔ملک کی ترقی اس وقت ممکن ہے کہ کڑی نگرانی ، کڑا قانون اور مخلص لیڈرشپ ہو ۔۔مجھ جیسے عام مسافروں کو بہت فخر محسوس ہوتا ہے ہمیں سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔ہم کام کو دیکھ کر دعا دیتے ہیں ۔ترقی دیکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں ۔خلوص دیکھ کر خوش ہوتےہیں ۔۔
ہارا ملک شادو آباد رہے۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔