فکروخیال ۔۔۔پی۔ٹی۔آئی کا خادم ۔ حیدرعلی خادم ۔..فرہاد خان ۔

حیدر بھائی کے ساتھ برسون یاری دوستی کا رشتہ ہے ۔پہلی ملاقات اور تعارف سے یہ معلوم ہوا کہ بندہ عمران خان و پاکستان تحریک انصاف کے شیدائی ہیں ۔یہ اُسی زمانے تحریک عمرانی کا حصہ تھے جب چترالی عوام کی اکثریت کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ تحریک انصاف نام کی بھی کوئی پارٹی اپنا وجود رکھتی ہے۔یہ اُس وقت اس تحریک کا حصہ تھے جب بہت سے ہمارے محترم لیڈرز ہر چڑھتے سورج کی پوجا میں مصروف تھے اور جماعت در جماعت گھس پر اقتدار کے مزے لے رہے تھے۔یہ اُس وقت سے اس پارٹی کے ساتھ تھے جب مرکز میں شیخ رشید ،شاہ محمود قریشی،فردوس عاشق اعوان اور صوبے میں افتاب شیرپاو و دیگر بااثر افراد تحریک انصاف کو تانگہ پارٹی جبکہ عمران خان کو ایک سیٹ کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے تھے۔ جس طرح چترال میں تحریک انصاف کے اولین بانی رکن کی حیثیت سے سجاد آحمد خان،قاسم صاحب و دیگر سرگرم کارکنان متحرک تھے اسی طرح گرم چشمہ میں تحریک انصاف کو متعارف کرنے اور رکن سازی میں پیش پیش رہنے والے انصافی ٹائیگر کے کاروان میں حیدر علی صاحب پیش پیش تھے ۔ یہ اُس وقت کے تانگہ پارٹی اور ایک سیٹ والی پارٹی کا حصہ تھے جب یہاں التجائیں کرکرکے اس نئی نویلی پارٹی کے لئے رکن سازی کے دشوار ترین دن تھے اور حیدر اس وقت سے پارٹی کا جھنڈا تھامے اسی کام میں مگن تھے۔2018 کے عام انتخابات سے کچھ مہینے پہلے حیدر بھائی سے راستے میں ملاقات ہوئی ۔وہ پارٹی بارے کسی تشویش میں مبتلا تھے اور اس بارے تفصیل سے گفتگو کی۔ وہ آنے والے انتخابات میں پارٹی میں دخل اندازی کرنے والے اور پارٹی کی مقبولیت دیکھ کر اس میں زبردستی گھس جانے والے افراد پر شدید برہم تھے اور پارٹی کے بانی کارکنان کو فیصلہ سازی میں شریک نہ کرنے جبکہ نووارد اثررسوخ والون کو پارٹی میں نےجا اہمیت دینے پر اپنے تحفظات کا اظہار کررہے تھے۔حیدر صاحب کے شکوے شکایتن بہت تھیں اور اس کا کہنا تھا کہ اپنی ان شکایات و تحفظات بارے ایک ارٹیکل بھی بہت جلد لکھیں گے۔پھر وقت بیت گیا ،انتخابات ہوگئے اور تحریک انصاف کی حکومت بھی قائم ہوگئی۔ چونکہ حیدر بھائی کا بسلسہ ملازمت سعودی عرب آنا جانا تھا اسی لئے ہم یہی سمجھ بیٹھے کہ وہیں ہونگے۔حیدر صاحب سے پہلے تو فیس بک پر رابطہ ہوتا رہتا تھا مگر سال دو سال کی خاموشی بھی پریشان کن تھی ۔پھر ایک دن فیس بک پر اچانک اس کی ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں موصوف تین سال پہلے آغاخان ہسپتال میں اپنے بازو کے اپریشن اور اس اپریشن کے نتیجے میں معذوری کا زکر کیا تھا میں چونک گیا کیونکہ میرے خیال میں حیدر صاحب بسلسلہ ملازمت سعودی عرب میں ہونگے۔تب پوچھنے پر پتہ چلا کہ حیدر تب سے گھر پر ہیں اور بیمار ہیں۔مجھے اس بڑے سانحے کا علم ہی اس پوسٹ کے بعد ہوا، حیدر بھائی سے فیس بک پر ہی بذریعہ میسیج رابطہ ہوا اور پتہ چلا کہ 2018 کے بعد وہ گھر پر ہی ہیں اور اس بیماری سے جنگ لڑنے میں مصروف ہیں ۔ حیدر بھائی آج بھی اس بیماری کا مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں اور اس کا عزم و حوصلہ اتنا بلند ہے کہ اس جیسے دس بیماریون کا جرات مندی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔وہ آج بھی اسی جوش و جذبے والا پی۔ٹی۔آئی ٹائیگر ہیں اور پارٹی کے لئے ہمیشہ نیک شگون رکھتے ہیں۔صحت و تندرستی اور بیماری یہ سب اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے ہماری دعائیں ہمیشہ سے اس کے ساتھ ہیں اور رہیں گے۔جاتے جاتے پاکستان تحریک انصاف کے ضلعی حکام سے گزارش ہے کہ حیدر جیسے پارٹی کے انتہائی مخلص کارکن کے صحت اور علاج کے سلسلے میں اس سے رابطے میں رہیں کیونکہ ایسے کارکن پارٹی کا سرمایہ ہوتے ہیں لہذا پارٹی کی زمہ داری ہے کہ اپنے ان مخلص کارکن کا اس مشکل وقت میں خاص خیال رکھے۔اللہ تعالی حیدر بھائی کو جلد صحت کاملہ عطا فرمائے۔ آمین۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔