جوش نہیں، ہوش سے کام لیں…محمد شریف شکیب

ملک کی سیاسی صورتحال میں گرما گرمی بڑھتی جارہی ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرادی ہے۔ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد صدر مملکت کے مواخذے اور سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے اپوزیشن نے طے کرلیا ہے کہ عبوری مدت کے لئے صدر پیپلز پارٹی یا جے یو آئی سے ہوگا۔جبکہ وزارت عظمیٰ مسلم لیگ ن کے لئے مختص کی گئی ہے۔ مرکز پر دباؤ بڑھانے کے لئے پنجاب کے وزیراعلیٰ کو تبدیل کرنے کے لئے حکومتی اتحادیوں نے بھی جلتی پر تیل ڈالنا شروع کردیا ہے۔ دوسری جانب حکومت نے تحریک عدم اعتماد سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی طے کرلی ہے۔ حکمران جماعت کے سینئر رہنماؤں کے اجلاس میں وزیراعظم کا کہنا ہیکہ ایسا پلان تیار کررکھا ہے کہ اپوزیشن کو سمجھ نہیں آنی، عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد سب کا حساب چکتا کیاجائے گا۔اوچھے ہتھکنڈوں سے گھبراکر وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ تمام حکومتی اور اتحادی ارکان میرے ساتھ ہیں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ حکومت کی قانونی ٹیم نے وزیر اعظم کو تجویز بھجوائی ہے کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے اراکین سے متعلق سپیکر کو خط لکھا جائے،ممکنہ طور پر منحرف اراکین کی فہرست پہلے ہی وزیراعظم کے پاس موجود ہے،وزیراعظم سپیکر سے درخواست کریں کہ وہ ان اراکین کو حکومتی پالیسی کی خلاف ورزی کی صورت میں ووٹ نہ ڈالنے دیں،یا ان کا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔سپیکر ایسے اراکین بارے ایوان میں ووٹنگ یا گنتی کے دوران آگاہ بھی کریں،سپیکر کو ایسے اراکین کے خلاف نا اہلی ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجنے کا بھی کہا جائے گا۔ایک تجویز یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز حکومت اور اس کے اتحادی ایوان نہیں آئیں گے۔ اپوزیشن ایوان میں تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے 172ووٹوں کی اپنی مطلوبہ اکثریت ثابت کرے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ دستور پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کی بات کی گئی ہے اور سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کے ممکنہ خدشے کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ فلور کراسنگ کرنے والوں کو ووٹ دینے سے قبل ہی روکا جائے۔ کیونکہ ووٹنگ کی تکمیل اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں انہیں پارٹی سے نکالنے سے نیاآئینی مسئلہ پیدا ہوگا اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر بھی سوالات اٹھیں گے۔ بظاہر حکومت کی اتحادی جماعتوں کا اس نازک صورتحال میں کردار بہت مایوس کن رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا حق ہے کہ وہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کا ووٹ توڑنے کی کوشش کرے۔یہاں اتحادی جماعتیں حکومت اور اپوزیشن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے کوشاں ہیں جن میں ترین گروپ، علیم خان گروپ، ایم کیو ایم، گرینڈ الائنس اور مسلم لیگ ق شامل ہیں۔پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کی رائے ہے کہ اپوزیشن نے غیر پارلیمانی قوتوں کے کہنے پر صحیح وقت پر غلط فیصلہ کیا ہے۔دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ غلط وقت پر صحیح فیصلہ کیاجائے۔ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تواگلے چھ مہینوں تک اپوزیشن کو چپ سادھ لینی ہوگی اس کے بعد ملک میں انتخابات کی تیاریاں شروع ہوجائیں گی۔عین ممکن ہے کہ حکومت خود ہی قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کرے۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو موجودہ قومی اور عالمی بحرانوں کی وجہ سے اپوزیشن کے لئے معاملات سنبھالنا بہت مشکل ہوگا اگر وہ موجودہ حکومت کی ٹیکسوں اور آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدے کو رول بیک کرتی ہے تو اسے مالی بحران سے دوچار ہوناپڑے گا جو اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں اپوزیشن کے لئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوسکتا ہے۔حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو موجودہ نازک صورتحال میں جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا اور قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ اگر اپنے سیاسی مفادات کے لئے ماضی کی فاش غلطیوں کو دہرانے کی کوشش کی گئی تو جمہوریت پٹڑی سے اتر سکتی ہے۔ جس کے نتیجے میں پارلیمانی جمہوریت ماضی کا قصہ بن سکتی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔