داد بیداد…موسم کا معمہ…ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

معمہ اس چیز کو کہتے ہیں جو آسا نی سے سمجھ میں نہ آسکتی ہو آج کل کلا ئمیٹ چینج کی انگریزی تر کیب ایک معمہ بنی ہوئی ہے اردو جا ننے والوں کے لئے اس کا جو تر جمہ کیا گیا وہ ہے ”مو سمیا تی تغیر“ ہمارے ایک دوست نے کہا یہ تو انگریزی سے بھی زیا دہ مشکل ہے جب ہم پو چھتے ہیں کہ کلا ئمیٹ چینج کیوں آیا؟ وہ جواب میں فر ما تے ہیں کہ گلو بل وارمنگ کی وجہ سے آیا ہم نے کہا آسان الفاظ میں سمجھا ؤ انہوں نے کہا اردو میں اس کو عالمی حد ت کہتے ہیں ہم نے کہا یہ انگریزی سے بھی مشکل ہے، وہ بولے گرین ہاوس گیسز، ہم نے پو چھا کیا؟ اس نے کہا اوزون لئیر، ہم سرپکڑ کے بیٹھ گئے سید ھی سی بات یہ ہے کہ گذشتہ 50سالوں کے اندر دنیا بھر میں سر دی کم ہوئی ہے، گر می بڑھ گئی ہے برف پگھلنے سے سیلا ب آرہے ہیں نشیبی آبا دیاں متا ثر ہورہی ہیں پا نی کے بڑے ذخا ئر میں ریت کے ٹیلے بن جا تے ہیں آب پا شی کی نہریں متاثر ہو رہی ہیں پن بجلی کی پیداوار میں کمی آرہی ہے پہاڑ وں سے آنے والے صاف پا نی کی بر کت سے میدا نوں میں فصل ہوتی تھی وہ بھی متاثر ہو ئی، باغا ت کے پھل متا ثر ہوئے، انسا نی آبا دی کی بنیادی ضروریات کا فقدان پیدا ہوا یہ سب درست ہے سمجھ میں آنے والامعا ملہ ہے مگر ذرائع ابلا غ میں مشکل الفاظ کے بے جا استعمال سے اس کو معمہ بنا یا گیا ہے عالمی حد ت، موسمیا تی تغیر، حیا تیا تی تنوع جیسے ثقیل الفاظ و ترا کیب کو سنکر غا لب کا مصرعہ یا د آتا ہے ”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“ مو جودہ دور میں تحفظ ما حول، پائیدار ترقی، ما حو لیا تی توازن، ما حو لیاتی سیا حت، حیا تیا تی تنوع جیسی بے شمار تراکیب باربار کا نوں سے ٹکرا تی ہیں اور سر کے اوپر سے گذر جا تی ہیں ایسا نہیں ہے کہ ہم ایک کا ن سے سن کر دوسرے کا ن سے اڑا دیتے ہیں بات یہ ہے کہ ہمیں ان جیسے سینکڑوں تراکیب کی سمجھ ہی نہیں آتی اور خود کو نا سمجھ کہتے ہوئے شرم آتی ہے ہمارے گاوں میں سال میں ایک فصل ہو تی ہے جو مارچ کے مہینے میں کا شت کی جا تی ہے 7ہزار فٹ سے زیا دہ بلندی پر واقع پہاڑی علا قوں کا ما حول ایک جیسا ہے اگر جنوری یا فر وری میں برف پڑ جا ئے تو مارچ میں کا شت کاری ہو تی ہے برف نہ پڑ ے تو لوگ بارش کا انتظار کرتے ہیں بارش نہ ہو تو کا شتکار ی نہیں ہو تی فصل ضا ئع ہو جا تی ہے گاوں میں ایک نشریا تی ادارے کی مو بائیل وین آگئی، وین سے پڑھے لکھے ہوئے باہر آئے بڑے بڑے کیمرے لائے گئے کا شت کاروں کے ساتھ مکا لہ شروع ہوا مگر کا شت کاروں کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آئی، مقا می سکول کا استاد وہاں مو جو د تھا اُس نے کا شت کاروں سے تین سوالات پو چھے، پہلا سوال یہ تھا کہ کیا یہاں وقت پر بارش ہوتی ہے؟ کا شت کاروں نے کہا نہیں، دوسرا سوال یہ تھا کیا گاوں میں گر می بڑھ گئی ہے؟ ان کا جواب تھا ہاں بڑھ گئی ہے، تیسرا سوال یہ تھا کیا سیلا ب بھی آتے ہیں؟ ان کا جواب تھا بہت سیلا ب آتے ہیں، اس طرح کاشتکاروں کے ساتھ مکا لمہ شروع ہوا نشریاتی ادارے کو کلا ئمیٹ چینج کے اثرات اور نقصا نات کا بھی جا ئزہ لینا تھا، سکول ٹیچر نے چار مزید سوال پو چھے کیا تمہا رے غلے کا ذائقہ پہلے سے بہتر ہوا ہے؟ جو اب تھا ذائقہ خراب ہو چکا ہے کیا تمہارے پھلوں کا رنگ اور ذائقہ پہلے کی نسبت اچھا ہے، جواب تھا نہیں پہلے بہت اچھا تھا، کیا تمہارے جنگلا ت میں اضا فہ ہوا ہے جواب تھا جنگلات کا رقبہ سال بہ سال کم ہو رہا ہے؟ کیا تمہارے ہاں پر ندوں اور چرندوں کی اقسام اور نسلوں میں اضا فہ ہوا ہے؟ جوا ب تھا اضا فہ نہیں ہوا، بلکہ کمی واقع ہوئی ہے، سکول کے ٹیچر نے کا شتکار وں کی دیہاتی زبان میں گفتگو کی اس لئے یہ گفتگو با معنی اور مفید ثا بت ہوئی، نشریا تی ادارے کے پڑھے لکھے لو گوں کی زبا نوں پر سائنسدانوں کی عنا یت کی ہوئی تر کیبات اوراصطلا حا ت کا طو مار تھا اور یہ طومار کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا مو سم کا معمہ یہ ہے کہ اس کی صورت حا ل کو عام آدمی کی زبان میں بیان نہیں کیا جا تا اگر آسان زبان میں میں بات ہو جا ئے تو ہمارے کا شتکار، با غبا ن اور زمیندار مو سمی شدت کا آسا نی سے مقا بلہ کر سکینگے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔