مٹی کے پتلے کا غرو۔۔۔ تحریر: اقبال حیات اف برغذی

نظام کائنات میں سب سے بڑا گناہ اور معصیت اپنی نوعیت کے اعتبار سے کبروغرور ہے۔ یہ وہ گناہ ہے جو سب سے پہلے شیطان سے سرزد ہونے پر ان کو رب کائنات کی اولین غیض وغضب کا شکار ہونا پڑا۔ اور شیطان کو اس کی تمام تر عبادتوں کے باوجود راندہ درگاہ کیا گیا ہے۔یہ وہ عمل ہے جو صرف اور صرف خالق کائنات کو زیب دیتا ہے۔ اور اس کا ارتکاب کرنے والا ان کی چادر میں پاوں ڈالنے کی کوشش سے مماثلت رکھتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سانس تک لینے اور ریح  کے باہر نکالنے کے معاملے تک محتاج مخلوق کا بڑائی کا دعویدار بننا بدتریں حماقت کے مترادف ہے۔ اس لئے خالق کائنات زمین پر اکڑ کر چلنے سے گریز کی تلقین کرتے ہوئے انسان کے زمین کو چیرنے اور پہاڑوں سے اونچا ہونے کی پوزیشن عاری ہونے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ کبرونخوت کا یہ عمل دولت و ثروت ،عہدہ ومنصب اور خود ساختہ حسب نسب کی بنیاد پر بنتا ہے۔ اوریہ عوامل دوسرے ہم جنسوں پر برتری کے فکر وخیال کو جنم دیکر اس کی آبیاری کرتے ہیں جس کیوجہ سے انسان اوروں کی تضحیک اور کم مائیگی کے تصور کے گھوڑے پر سوار اپنی بالادستی قائم کرنے کا خواہشمند رہتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر دنیا میں دولت کو عزت کا معیار تصور کیا جائے تو آج قارون کا ڈنکہ بجتا ۔اگر عہدے اور حکمرانی کی کوئی وقعت ہوتی تو فرعون کا احترام دل میں جگہ بنا لیتا۔ اگر حسب نسب کا وقار ہوتا تو ابو جہل کے چرچے ہوتے۔ مگر جس عمل کی بنیاد پر انسان کو حقیقی عزت و توقیر نصیب ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ انسانوں کے سردار محمد مصطفے صلی اللہ وعلیہ وسلم کے معراج کے موقع پر عرش پر اپنے صحابی بلال حبشی  کے قدموں کے آہٹ سننے سے لگایا جاسکتا ہے۔ جو ہر قسم کی مادی حیثیتوں سے خالی صرف اور صرف تقوی کی بنیاد پر اتنے بڑے منصب پر فائز ہوئے کہ قیامت تک بلال کا نام انتہائی مرتبے اور رتبے کے آسمان پر چمکتا رہے گا۔

پانچ فٹ کا قد کاٹ کا انسان خود میں غرور کا عنصر موجودہونے یا نہ ہونے کا اندازہ صرف کسی کی طرف سے استعمال ہونے والا ایک جملہ “تمہاری کیا حیثیت ہے” کے ردعمل سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ اس جملے سے بدن میں آگ لگتا اور اسے اپنی تحقیر گیر داننا غرور کی موجودگی کا عندیہ دیتاہے۔اور اگر جواب میں خود کو مجبور محض بندے رنگ میں پیش کیا جائے تو یہ اس گھنا ونے گناہ سے وجود کے پاک ہونے کی علامت ہوگی۔

حضرت سفیان ثوری ؒ  کو ایک شخص کسی بات پر “تم مجھے نہیں جانتے کہ میں کون ہوں” کہتا ہے ثوری ؒ جواب میں فرماتے ہیں کہ میں آپ کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں ۔آپ کے ابتدا ایک گندے پانی کی بوند سے ہوا ہے جو کپٹرے پر پڑے تو دھونے سے بھی دل کی خلش دور نہیں ہوتی ۔تمہاری درمیانی حالت یہ ہے کہ ساری زندگی پیٹ میں گندگی لئے پھیرتا ہے ۔اگر اس کی نکاسی کا راستہ بند ہوجائے تو آپ سے ایسی چیخ نکلے گی کہ لوگ اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالنے پر مجبور ہونگے۔ تمہاری اخری پوزیشن یہ ہے۔ کہ جب جان قفس عنقری سے پرواز کرجائے تو تمہارے وجود کو زمین کے اوپر چھوڑنے پر ایسی بدبو پھیلے گی کہ لوگ ناک پکڑنے پر مجبور ہونگے۔

مختصر یہ کہ غرور ایک ایسا ایٹم بم ہے جو تمام اعمال صالحہ کو ہیروشیما کے روپ میں بدل دیتا ہے اور دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبیر پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن جنت کی خوشبو سے بھی محروم ہونے کی وعید سناتے ہیں۔حیرت ہوتی ہے کہ انسان اپنی مسلمہ بے بسی کے باوجود ایسے گھناونے جرم کا ارتکاب کرنے کی جرات کرتا ہے۔ ایسے لوگوں پر نظر پڑتے ہی کیا” کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ ” محاورہ بے ساختہ ذہین میں آتا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔