تجاوزات ایک اہم شہری مسئلہ۔۔۔۔محمد شریف شکیب

پشاورشہر کے کسی بھی علاقے میں عصر کے بعد چوراہوں، بازاروں اور سڑکوں پرہتھ ریڑھیوں کا ایک سیلاب امڈ آتا ہے عام لوگوں خصوصاً عمر رسیدہ افراد، خواتین اور بچوں کا وہاں سے گذرنا محال ہوتا ہے۔ ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق بیشتر ہتھ ریڑھیوں کے پرمٹ جعلی ہوتے ہیں اور اکثر ریڑھی والوں کے پاس سرے سے پرمٹ ہی نہیں ہوتے۔انتظامیہ نے تمام جعلی پرمٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے شاہی کھٹہ، ہشتنگری ریلوے پھاٹک، فردوس ریلوے پھاٹک اور گڑ منڈی میں ہتھ ریڑھیوں کو جاری ہونے والے پرمٹوں کی چھان بین کی جاررہی ہے۔ اس وقت پشاورشہر میں غیر رجسٹرڈ ہتھ ریڑھیوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہیں جنہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز صوبائی حکومت کودی گئی ہے اور فی ہتھ ریڑھی سے سالانہ 500سے 2000ہزار روپے ٹیکس وصول کرنے کی تجویز ہے۔ سرکاری ٹیکس سے بچنے کے لئے بیشتر ہتھ ریڑھی بانوں نے جعلی پرمٹ تیار کررکھے ہیں،سرکاری اعدادو شمار کے مطابق صرف دس فیصد ریڑھی بانوں نے ٹیکس جمع کرکے قانونی پرمٹ حاصل کررکھے ہیں جبکہ نوے فیصد کے پاس یاتو پرمٹ موجود ہی نہیں یا انہوں نے جعلی پرمٹ بنارکھے ہیں۔رپورٹ کے مطابق جعلی اور غیر قانونی پرمٹوں پر شاہی کھٹہ پر تجاوزات قائم کی گئی تھیں۔ ان دکانوں کی چھان بین کے لئے بھی ٹاؤن ون انتظامیہ نے کمیٹی تشکیل دی ہے۔یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ ریڑھی والے غریب محنت کش ہوتے ہیں جو اپنی ریڑھیوں پر سبزی، پھل اور دیگر اشیاء سجا کر دن بھر شہر کی سڑکوں پر گھوم پھیر کر اپنے لئے رزق کماتے ہیں۔ انتظامیہ نے ریڑھی بانوں کے لئے شہر کے مختلف علاقوں میں مقامات مختص کردیئے تھے۔ تاکہ ان ریڑھیوں کی وجہ سے ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ نہ پڑے تاہم ریڑھی بانوں کی اکثریت دوبارہ سڑکوں پر آگئی۔ ایف بی آر کی سفارش پر حکومت نے ان ریڑھی بانوں سے واجبی ٹیکس وصول کرنے کا فیصلہ کیاتھا۔ اور انہیں رجسٹریشن کرانے کا پابند بنایاتھا۔ سال کے پانچ سو روپے قومی خزانے میں جمع کرکے اپنا کاروبار بلاخوف و خطر چلانا کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ حکومت نے چھوٹے دکانداروں پر بھی سالانہ ایک ہزار سے پانچ ہزار تک ٹیکس لگا رکھا ہے تاکہ روزانہ دو تین ہزار روپے کمانے والے پچاس روپے قومی خزانے میں بھی جمع کرادیں۔ہم من حیث القوم شارٹ کٹ کے عادی ہوچکے ہیں۔ اسی وجہ سے ریڑھی بانوں نے پانچ سو روپے دے کر اپنے کاروبار کو قانونی شکل دینے کے بجائے جعلی پرمٹ بناکر سرکاری اداروں کو ماموں بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ قصہ خوانی، خیبر بازار،ہشت نگری چوک، چوک یادگار،چرگانو چوک، فردوس مارکیٹ اور دیگر مقامات پر ریڑھی بانوں کی وجہ سے ہمیشہ رش لگا رہتا ہے جس سے ٹریفک کی روانی میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔ شہری زندگی کے معمولات کو درست کرنے کے لئے انتظامیہ کو بعض اوقات سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں جس کے خلاف بسا اوقات تجارتی انجمنیں، سول سوسائٹی اور ریڑھی بانوں کے یونین بھی خم ٹھونک کر میدان میں اتر آتی ہے جس کی وجہ سے انتظامیہ کے لئے قانون کا نفاذ مشکل ہوجاتا ہے۔شہریوں کو مشکلات سے نجات دلانے، ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے اور نظم و ضبط کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ شہری بھی پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں اس میں سب کا فائدہ ہے اگر اجتماعی فائدے کی خاطر انفرادی طور پر کچھ قربانیاں بھی دینی پڑیں تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔