الیکشن جائزہ۔۔۔ تحصیل موڑکھو تورکھو آز: ظہیر الدین

موڑکھو تورکھو کو تحصیل مستوج سے جدا کرکے تحصیل کادرجہ دینے کے بعد پہلی مرتبہ منعقد ہونے والی بلدیاتی انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں کو اپنی پوزیشن جانچنے کا موقع ملا۔ اس تحصیل میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 74096ہے جن میں سے 37738ووٹ پول ہوئے ا ور یوں ووٹرز ٹرن آوٹ کی شرح 51فیصد رہا۔ انتخابی نتائج کے جائزے کے لئے اس تحصیل کو چھ مختلف علاقوں تورکھو، نشکو، تریچ، موڑکھو خاص، موژگول تا کوشٹ اور اویر میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ الیکشن سے قبل موڑکھو (چاریونین کونسلوں پرمشتمل) اور تورکھو (دو یونین کونسلوں پرمشتمل) کے درمیان مخاصمت کی فضا موجود تھی کیونکہ تورکھو موڑکھو کی نوزائیدہ تحصیل کے ہیڈ کوارٹرز کے بارے میں موڑکھو اور تورکھو کے درمیان چپقلش پائی جاتی تھی کیونکہ اہالیان تورکھو کا موقف ہے کہ ان کو اپنے کاموں کے واسطے وریجون تک رسائی بہت ہی مشکل ہے اور اس بنا پر وہ کاغ لشٹ میں ہیڈکوارٹرز کا قیام چاہتے ہیں۔ تحصیل لوکل گورنمنٹ کی چیرمین شپ کے لئے چھ امیدوار میدان میں اترگئے تھے جن میں دو آزاد بھی شامل تھے۔ حکمران جماعت پی ٹی آئی کی طرف سے میرجمشید الدین نے 8373ووٹ لے کر اپنی قریب تریں حریف مولانا فتح الباری (جے یو آئی اور مسلم لیگ۔ن کا مشترکہ امیدوار) کو 1726ووٹوں سے شکست دے دی جس نے 6647ووٹ حاصل کی۔ جماعت اسلامی کے مولانا جاوید حسین 6573ووٹ لے کر تیسرے پوزیشن پر اور پی پی پی کے مستنصر الدین 6217ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہاجبکہ آزاد امیدوار (پی ٹی آئی کا ناراض کارکن) محمد ہارون نے 4619اور فخرالدین (جے یو آئی کا حامی اور ان کی سیٹ پر سابق تحصیل نائب ناظم) نے 3222ووٹ حاصل کی۔
تورکھو (استارو سے لے کر کھوت اورریچ تک) میں قائم 22پولنگ اسٹیشنوں میں 13034ووٹ پول ہوئے جن میں سے میر جمشید الدین نے 5587ووٹ حاصل کی جسے حکمران جماعت سے تعلق رکھنے اور معاون خصوصی وزیر زادہ کی محنت کے ساتھ ساتھ اس علاقے سے واحد امیدوار ہونے کا فائدہ بھی حاصل تھا اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کی کل حاصل کردہ ووٹوں کا 68فیصد ووٹ اس علاقے سے حاصل ہوئے جوکہ ان کی کامیابی کے سبب ثابت ہوئے۔ آزاد امیدوار محمد ہارون نے اس علاقے میں تمام سیاسی جماعتوں کو بہت ہی پیچھے چھوڑتے ہوئے 2358ووٹ پول کئے جبکہ جماعت اسلامی کو 1100، جے یو آئی اور مسلم لیگ۔ن کے مشترکہ امیدوار کو 1705اور پی پی پی کے امیدوار کو جبکہ آزاد امیدوار فخر الدین کو صرف 189ووٹ مل گئے۔ اس علاقے میں جمشید الدین کو غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی طرف سے بھی کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
نشکو کے علاقے پرسیاسی مبصروں کی نظریں لگی ہوئی تھیں کیونکہ آزاد امیدوار محمد ہارون اور جے یو آئی کے مولانا فتح الباری کا تعلق اس گاؤں سے تھا۔ یہاں پر قائم دو پولنگ اسٹیشنوں میں کل 712ووٹ پول ہوئے جن میں سے محمد ہارون نے 412اور فتح الباری نے 154ووٹ حاصل کی جبکہ جماعت اسلامی کو 35، مستنصر کو صرف 3، فخر الدین کو صرف 2اور پی ٹی آئی کو صرف 24حاصل ہوئے اور یوں محمد ہارون کا پلہ بھاری رہا۔
نشکو سے متصلہ وادی تریچ (لون کوہ سے لے کر شاگروم تک) میں قائم 7پولنگ اسٹیشنوں میں پول ہونے والے 3020ووٹوں میں سے فتح الباری نے 826اور جاوید حسین نے 676ووٹ حاصل کیا جبکہ محمد ہارون یہاں 621ووٹوں کے ساتھ تیسرے پوزیشن پر رہے۔ پی ٹی آئی کو اس وادی سے 442اور پی پی پی کو 263ووٹ ملے۔مقامی سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس وادی میں محمد ہارون نے پی ٹی آئی کو سب سے ذیادہ نقصان پہنچایا ورنہ یہاں پر پارٹی کی پوزیشن مستحکم بتائی جارہی تھی اور ویلج چیرمین شپ بھی پی ٹی آئی ہی کے حصے میں آئی۔ اس علاقے میں ووٹروں کی ٹرن آوٹ کی شرح بھی بہت کم ریکارڈ ہوا کیونکہ اس سیزن میں اکثر باشندے چترال سے باہر رہتے ہیں اور مئی کے اوائل تک ان کی واپسی ہوتی ہے اور کم ٹرن آوٹ کی وجہ سے مجموعی نتیجے پر اثر انداز نہ ہوسکا۔
موڑکھو خاص (نوگرام سے لے کر کشم تک) کے سابق یونین کونسل میں گیارہ پولنگ اسٹیشنوں میں پول ہونے والے ووٹوں کی تعداد 6670رہا جن میں سے جماعت اسلامی نے2536ووٹوں کے ساتھ اکثریت حاصل کی جبکہ اس کے امیدوار جے یو آئی کی مدد سے گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں ممبر ضلع کونسل منتخب ہوچکے تھے۔ اگرچہ یہ علاقے جے یو آئی کا گڑھ رہا ہے لیکن اس الیکشن میں فتح الباری 1348ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا اور پی پی پی کے امیدوار مقامی ہونے کی وجہ سے 1156ووٹ حاصل کرسکے جبکہ پی ٹی آئی کو 671ووٹ ملے اور محمد ہارون نے ان کے قریب قریب 516حاصل کیا۔ فخرالدین کو اس علاقے سے صرف 89ووٹ ملے۔
موژگول سے لے کر موردیر اورکوشٹ تک کا علاقہ بھی اہمیت کا حامل تھا جہاں گیارہ پولنگ اسٹیشنوں میں 5906ووٹ پول ہوئے۔ پی پی پی کے امیدوار کا تعلق اس علاقے میں ایک بااثر خاندان سے ہونے کی وجہ سے دوسرے تمام امیدوار یہاں پر ان سے خوفزدہ تھے لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی یہاں سے حاصل نہ ہوسکی جوکل پول شدہ ووٹوں کا 40فیصد حاصل کرسکے۔ پی پی پی کو اس علاقے میں 2382، جماعت اسلامی کو 1143، جے یو آئی کو 822، پی ٹی آئی کو 680، محمد ہارون کو 281اور فخر الدین کو 276ووٹ مل گئے۔
اویر کے 8پولنگ اسٹیشنوں میں پول ہونے والے 3618ووٹوں میں سے مقامی امیدوار فخر الدین نے 1496، جے یو آئی کے فتح الباری نے 813، جماعت اسلامی نے 436 اور پی ٹی آئی نے 363ووٹ حاصل کی۔ مقامی ذرائع کے مطابق فخر الدین نے اس علاقے میں جے یوآئی کو نقصان پہنچائی جس کے حاصل کردہ ووٹوں میں تقریباً ایک ہزار سے ذیادہ کا تعلق جے یو آئی سے تھالیکن مجموعی طور پر یہ انتخابی نتیجہ کو بدلنے کی پوزیشن میں نہ تھا کیونکہ مولانا فتح الباری اور پی ٹی آئی کے درمیان 1726ووٹوں کا خلیج اس سے پر نہیں ہوسکتا تھا۔
باخبر حلقوں کے مطابق پی ٹی آئی کو اس کے باغی آزاد امیدوار اور تورکھو میں ان کی ایک تقریر کی ویڈیو نے نقصان پہنچایا جس میں ان کی تقریر کو سیاق وسباق سے ہٹ کر ایک مخصوص حصے کو وائرل کرکے ان کے خلاف اہالیاں موڑکھو کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی گئی جس میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی جوکہ انتخابی نتائج سے ظاہرہے جبکہ تورکھومیں بھی انہوں نے اپنے خلاف پیدا شدہ ایک اور محاذ کی وجہ سے تورکھو سے باہر نکلنے اور بار بار ہر گاؤں تک پہنچنے کی مہلت بہت کم ہی مل سکی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔