دھڑکنوں کی زبان …”سکولوں کے اندر موباٸل فون پرپابندی”..محمد جاوید حیات 

ہم غیر ذمہ دار اور غیر سنجیدہ قوم ہیں ہم اپنے کام سے کام نہیں رکھتے ۔ہم اپنے فرایض کی اداٸیگی میں غافل ہیں ۔جس کو جو کام سونپا جاتا ہے وہ اس کام کے ساتھ انصاف نہیں کرتا لہذا مجبوریاں ہوتی ہیں میں صوبہ خیبر پوختونخواہ کے علم دوست اور استاذ دوست وزیر تعلیم کے سکولوں میں موباٸل فون پر پابندی کےاس اعلان کو بھی مجبوری سمجھتا ہوں اس لۓ کہ استاذ اور شاگرد دونوں موباٸل فون کا غلط استعمال کر رہے ہیں ۔استاذ کی کلاس لگی ہے مگر وہ فون ہاتھ میں لۓ “نیٹ ” پہ لگا ہوا ہے دنیا و مافیھا سے بے خبر ہے ۔استاذ کی کلاس لگی ہوٸی ہے لیکن وہ فون کانوں سے لگاۓ کسی سے محوۓ گفتگو ہے ۔استاد کلاس روم کے اندر ہے اور مسیج کر رہا ہے ۔استاد پڑھا رہا ہے درمیان میں فون آتا ہے استاد باہر أکر کال لے رہا ہے لمبی باتیں ہوتی ہیں کلاس ضائع ہوتی ہے ۔شاگرد کے پاس فون ہو تو نتائج اس سے بھی گھمبیر ہیں اب اس پر پابندی نہ لگاٸی جاۓ تو اور کیا کیا جاۓ ۔وزیر تعلیم کو بچوں کی تعلیم و تربیت کی فکر ہے اللہ اس کو اس کا بدلہ دے ۔لیکن یہاں پر کچھ سواات اٹھتے ہیں ۔۔پہلا یہ کہ آج سے کچھ سالوں پہلے موباٸل فون نہیں تھا سکول سسٹم اس وقت بھی بہتر انتظام کی وجہ سے چلتا تھا۔ سکول کا ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل منتظم ہو تو سب کام ٹھیک ہوتے ہیں نظم و ضبط مثالی ہوتی ہے یہ مثالیں آج بھی ہیں ۔دوسرا سوال دور کے تقاضے ہیں آج یہ موباٸل فون وقت کی ضرورت بن گٸی ہے دنیا مینول سے ڈیجیٹل ہو گٸی ہے ۔تیسرا سوال یہ فون سکولوں کے علاوہ بھی زندگی کو متاثر کر گیا ہے ۔بڑے سے بڑے أفیسر کے دفتر میں اگر أفیسر موباٸل کانوں پہ لگایا ہوا ہے تو تمہیں گھنٹوں انتظار کرنا پڑےگا ۔ڈاکٹر کے سامنے مریض تڑپ رہا یے ڈاکٹر فون پہ لگا ہے پولیس ایف آٸی آر کاٹ رہی ہے لیکن اگر فون آۓ تو قرن گزرے ایف آٸی آر نہ کٹے ۔ڈرائیور ایک ہاتھ سے ڈرایونگ کر رہا ہے ایک ہاتھ میں فون ہے باورچی خانے میں عورت ایک ہاتھ سے کھانا پکا رہی ہے ایک ہاتھ میں فون ہے کانوں سے لگا ہوا ہے۔ مسجد کا امام خطبہ دے رہا ہے لیکن ایک ہاتھ سے فون پکڑا ہوا ہے گویا یہ زندگی کا جزو لا ینفک ہے اس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہاں اس کے استعمال کے تقاضے ہوناچاہٸیں اس کے استعمال کی حد ہونی چاہیۓ ۔اب سکولوں میں پابندی ممکن ہے یا نہیں یہ پھر سے سوال ہے ۔اگر سوچا جاۓ تو أجکل سکولوں کے اندر بھی ڈیجیٹل سسٹم آگیا ہے ۔استاد کی ساری زندگی سمارٹ فون میں آگئی ہے اس کی سروس ریکارڈ, اسکے لۓ محکمانہ حکم نامے, اس کے لۓ محکمانہ ساری معلومات, نوکری کے اشتھارات , تقرریوں کی لسٹ, سینیرٹی لسٹ, تبادلے ,مختلف فارمز, بچوں کے آن لاٸن داخلے سب کچھ سمارٹ فون کے اندر ہے اس کے علاوہ سمارٹ میں دنیا سمٹ آٸی ہے گوگل چچا معلومات اور علم کا خزانہ ہے کوٸی لفظ ڈھونڈنا ہو, کوٸی تحقق ہو, کسی مسلے کی وضاحت ہو ,کوٸی معلومات حاصل کرنا ہو گویا کہ دنیاۓ علم, دنیاۓ ساینس ,دنیا فن, دنیا ادب, تعلیم تعلم کی جدید ٹیکنیک أخر اس میں کیا نہیں ہے اس کے بغیر یہ زندگی ممکن ہی نہیں اس پرپابندی لگانا گویا زندگی کو مفلوج کرنا ہے جس تیزی سے اس کی افادیت اور ہر میدان میں اس کا استعمال بڑھ رہا ہے انسان مستقبل قریب میں اس کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتا ۔لیکن ہماری بد بختی یہ ہے کہ ہم اس کو غلط استعمال کرتے ہیں ۔یہ تو استاد کے لۓ بہ ظاہر ایک بہترین تدریسی معاونAV Aid ہے لیکن استاد اس لحاظ سے کبھی سوچتا نہیں ۔استاد کو اپنے سبق کے لۓ تیاری کا اس سے اسان بہتر اور مفید الہ ملے گا ہی نہیں ۔وہ نوٹ پیڈ پہ نوٹ لے لے ۔اس کو ساتھ کلاس روم میں لے جاۓ نوٹ کھولے اور سبق پڑھاۓ ۔استاذ معلومات کا سکرین شارٹ لےلے کلاس روم میں وہ بچوں تک پہنچاۓ استاذ کلاس روم ہی میں گوگل کا استعمال کرے اور بچوں کو معلومات دے دے ۔۔ٹیلی کلاسس کو ڈاون لوڈ کرے کل کلاس میں پیش کرے ۔میرے خیال میں آجکل کتاب کے ساتھ سمارٹ فون لے کر استاد کلاس روم میں داخل ہو جاۓ تدریسی معاون کے طور پر اس کو استعمال کرے بلکہ بچوں سے استعمال کراۓ استاذ کامیاب مدرس بن سکتا ہے ۔لیکن ہمارے ہاں یہ خواب جیسی توضیحات ہیں ۔یہ ہدایات استاد کے پلےکب پڑتی ہیں ۔وہ اس کو غلط ہی استعمال کرے گا اور تجربے میں بھی یہ تلخ حقیقت آٸی ہے کہ استاذ سمارٹ فون میں زیادہ مگن ہے بچوں کی تعلیم و تربیت کی فکر تک بھلا دیا ہے ۔۔وزیر تعلیم صاحب سچ میں اس غم میں گھل رہے ہیں کہ قوم کے معمار قوم کے مسمار بنتے جا رہے ہیں اس لاپرواہی کا تدارک کیا جاۓ ورنہ قوم کے بچوں کا بیڑھا عرق ہو جاۓ گا ۔۔اس سلسلے میں ادارے کے ہیڈ کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے کہ وہ اساتذہ کی کڑی نگرانی کرے کلاس روم میں ان پر نظر رکھے اگر استاذ ٹیبلٹ یا سمارٹ فون اس لۓ کلاس روم میں لے جاۓ کہ یہ تدریسی معاون ہو تو استاذ شاباش کے مستحق ہے اور اگر خدا نخواستہ وہ کلاس روم میں یا کلاس روم سے جبکہ کلاس لگی ہو فون استعمال کررہا ہے تو اس کی سزا کڑی ہو بے شک سکینڈری تک بچوں پر پابندی ہو ۔ ہمارے بچے ہمارے مسقبل ہیں اور اساتذہ مستقبل کے معمار ۔۔دور جدید کے تقاضوں سے مفر ممکن نہیں لیکن یہ کہیں ہمیں نقصان نہ پہنچاٸیں جس طرح سمارٹ فون ہے یہ فوبیا بھی ہوسکتا ہے اور دست راس بھی ۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔