عید کیسے منائیں۔۔؟۔۔۔اشتیاق چترالی

ہر قوم کے کچھ خاص دن ہوتے ہیں جن میں اس قوم کے لوگ اپنے اپنے عقیدے اور رسم و رواج کے مطابق جشن مناتے ہیں،اچھا لباس زیب تن کرتے ہیں،اچھے اچھے پکوان بناتے ہیں اور مل جل کر کچھ خوشی کے لمحات گزارتے ہیں۔
عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی،خوشی،جشن،فرصت اور چہل پہل کے ہیں جبکہ فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں۔یعنی روزہ توڑنا یا ختم کرنا۔
عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے اور مسلمان پورا مہینہ روزوں کے ساتھ ساتھ تراویح،فرائض کے ساتھ ساتھ سنن اور نوافل کے علاوہ قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت کا بھی اہتمام کرتے ہیں اور وہی نیکی جو عام دن اور مہینوں میں ایک ہی شمار کیا جاتا ہو وہ اس مہینے ڈبل سے بھی زیادہ ثواب کا باعث بن جاتا ہے لہذا مجھ جیسا گنہگار بندہ بھی اس مہینے میں عبادات کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔
عربی زبان کے لفظ عود سے ماخوذ اس لفظ کا مطلب و مفہوم لوٹنا یا پلٹ کر آنا ہے مطلب یہ کہ وہ دن جو ڈھیر ساری خوشیوں سمیت بار بار لوٹ کر آئے،خوشی کے اس دن ہمیں چند ایک ضروری چیزیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے تاکہ معاشرے میں کچھ ایسے افراد جو اس خوشی اور مسرت کے موقع کو اس طرح منانے سے قاصر نہ ہوں جیسے دیگر افراد اس کو منا رہے ہوں اور وہ اس سے قاصر نہ رہیں،ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس دن ان کے گھروں،ان کے بچوں اور خواتین کو بھی وہی سہولیات فراہم ہیں یا نہیں،ان کے خواتین اور بچوں نے بھی عید کی مناسبت سے کپڑے سلوائے ہیں یا نہیں،مختلف قسم کے انواع و اقسام پکوان ان کو بھی میسر ہیں یا نہیں اگر ان سب کا جواب نفی میں ہے تو ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ پورا مہینہ ہم اللّٰہ کو راضی کرتے کرتے عید والے دن مخلوق خدا کو ناراض نہ کر بیٹھیں جو بلا شبہ خالق کو ناراض کرنے کا ہی موجب ہے جو باوجود آخروی زندگی میں کامیابی و کامرانی کے مزید تباہی و بربادی کا سامنا نا کرنا پڑ جائے کیونکہ مخلوق خدا کی دل آزاری اور حق تلفی کرکے رب کو راضی کرنا محال ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہی ہے۔اس لئے ہم سب کو اپنے اردگرد کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم جو چیز اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے پسند کرکے لائے ہوں اور جو سہولیات ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو میسر ہیں وہی ہمارے اردگرد اوع پڑوس میں رہنے والوں کو میسر ہیں یا نہیں؟اگر واقعی ہیں تو پھر سب صحیح ہے اور عید کا مزا دوبالا ہو جائے گا اور اگر نہیں تو پھر ہمیں اپنی تباہی کا مزید سامان نہیں کرنا چاہئے اور مخلوق خدا کو راضی کرکے رب کو راضی کرنے میں آسانی ہو سکے۔
اس حوالے سے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
اپنی خوشیاں بھول جا سب کا درد خرید
سیفی تب جا کر کہیں تیری ہو گی عید؛؛؛
جو لوگ معاشی مشکلات کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں ان کے درد کو بانٹنا چاہئے تاکہ ان کے گھر والے خصوصاً چھوٹے بچے جو ابھی ابھی زندگی کے اولین اسٹیج پہ ہیں کسی بھی قسم کی ذہنی کوفت اور اپنے آپ کو دوسروں سے کم تر نہ سمجھنے لگیں اور ابھی سے ذہنی ڈپریشن کا شکار نہ بنیں کیونکہ وہ بچے ہیں یہ احساس محرومیاں ان کی ذہنوں میں نقش ہو جاتے ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہےکہ ان کے چہروں پہ بھی پھول کھلیں، معاشرے میں خوشحالی آئے اور ان کے دکھ درد کو بانٹیں اس میں شریک ہو جائیں اور وہی چیز ان کو اور ان کے گھر والوں کو فراہم کرنے کی کوشش کریں جو ہمیں میسر ہیں تبھی ہم رمضان کے روزوں کی فضیلت کو صحیح طرح سے سمیٹیں،اس لئے مخلوق خدا خاص کر محروم طبقے کو اوپر لانے اور ان کو معاشی طور پر خوشحال بنانے کی باقاعدہ مہم چلانا چاہئے اور ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی بساط کے مطابق اس کارخیر کی انجام دہی کو ممکن بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہو اور لوگ اتنے خوشحال ہو جائیں کہ ڈھونڈنےسے بھی بمشکل کوئی صدقات وصول کرنے والا مل جائے اور وہی وسائل ہم معاشرے کے دوسرے فلاح کے کاموں پہ لگا سکیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔