تعلیم کے شعبے میں مزید اصلاحات…محمد شریف شکیب

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے تمام سرکاری سکولوں کے سربراہوں ٗ اساتذہ اور طلبہ کے موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے ٗ حکومت نے تمام اساتذہ کو ٹائم سکیل اورچار درجاتی فارمولے کے تحت ترقی دینے کا بھی عندیہ دیا ہے ٗ صوبے کے تمام ایڈہاک اساتذہ کو مستقل کرنے کیلئے ہوم ورک شروع کر دیا گیا ہے پرنسپلوں اور ہیڈ ماسٹروں کیلئے روزانہ حاضری لگانا لازمی قرار دیا گیا ہے صوبہ بھر کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ معمول کے دوروں کے علاوہ ہر ہفتے میں ایک دن تحصیل وائز وزٹ بھی کریں اور سکولوں میں سہولیات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کے عمل کی مانیٹرنگ بھی کریں۔محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم نے اساتذہ کے بین الاضلاعی تبادلوں کیلئے پالیسی گائیڈ لائن بھی جاری کر دی ہے ٗجس کے مطابق سینئر ٹیچرز کو ”ڈی گریڈ“کرنے کے بعد انہیں این او سی اور پوسٹ کی دستیابی کا سرٹیفیکٹ جاری ہوگا ٗ نچلے گریڈ میں تنزلی قبول نہ کرنیوالوں کے ا نٹر ڈسٹرکٹ ٹرانسفر پر مکمل پابندی ہوگی ٗ یہ پالیسی گریڈ 16کے سینئر سی ٹی ٗ سینئر ڈی ایم ٗ سینئر پی ای ٹی ٗ سینئر اے ٹی ٗ سینئر ٹی ٹی ٗ گریڈ 15کے سینئر قاری ٗ سینئر پی ایس ایچ ٹی اور گریڈ 14کے سینئر پی ایس ٹیز پر عائد ہوگی ٗ تبادلے کے خواہشمند ایسے سینئر اساتذہ کو گریڈ 15میں سی ٹی ٗ ڈی ایم ٗ پی ای ٹی ٗ اے ٹی ٗ ٹی ٹی اور گریڈ 12میں قاری و پی ایس ٹی کی پوسٹ پر ڈاؤن گریڈڈ کیا جائیگا ٗ یہ اختیارمتعلقہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز کا ہوگا ٗ نچلے گریڈ میں تنزلی کے بعد متعلقہ ٹیچر کوایک ماہ تک اس گریڈ میں ڈیوٹی دینے کا پابند بنایاگیا ہے۔محکمہ تعلیم میں اصلاحات کی بدولت اس شعبے کے انتظامی سیکٹر میں کافی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔سٹاف کو ڈیوٹی پر حاضر ہونے کا پابند بنایاگیا ہے۔اس سے قبل اساتذہ بغیر اطلاع دیئے مہینوں غائب رہتے تھے۔جس سے بچوں کی تعلیم کا حرج ہوتا تھا۔ انفراسٹریکچر کی بہتری، وسائل کی فراہمی، سٹاف کی کمی پوری کرنے اور مانیٹرنگ کا نظام موثر بنانے کے باوجود سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار میں کوئی خاطر خواہ بہتری نظر نہیں آرہی۔ حکومت نے این ٹی ایس کے ذریعے سٹاف کی بھرتی کا جوطریقہ کار اختیار کیا ہے اس کی بدولت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بطور مدرس بھرتی ہورہے ہیں حکومت نے موجودہ تدریسی عملے کو امتحانی عمل سے گذارنے کی پالیسی وضع کی تھی مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ محکمہ تعلیم میں کچھ انتہائی قابل، محنتی، فرض شناس اور تجربہ کار اساتذہ بھی موجود ہیں جن کی مثالیں دی جاتی ہیں مگر گذشتہ تیس سالوں میں تعلیم کے شعبے میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے ایسے لوگ رشوت اور سفارش کے بل بوتے پرشعبہ تدریس سے وابستہ ہوچکے ہیں۔جوکسی بھی لحاظ سے استاد کہلانے کے مستحق نہیں۔اور المیہ یہ ہے کہ سینارٹی کی بنیاد پر ترقی کرکے وہ گریڈ سولہ، سترہ اور اٹھارہ تک پہنچ چکے ہیں۔اگر گریڈ چودہ اور اس سے اوپر کے گریڈ پر ترقی کے لئے این ٹی ایس پاس کرنے کی شرط رکھی جائے تو ان میں سے دو فیصد بھی کوالیفائی نہیں کرسکتے۔ اساتذہ قوم کے مستقبل کے معماروں کی کردار سازی اور انہیں آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتے ہیں دنیا کے ترقیافتہ ممالک میں قابل ترین لوگوں کو شعبہ تعلیم میں رکھا جاتا ہے۔ انہیں پرکشش تنخواہ دی جاتی ہیں اور معاشرے میں انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں کوئی نوجوان کسی دوسرے شعبے میں کھپ جانے کے قابل نہ ہو تو اسے ٹیچر بھرتی کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آزادی کے 75سال گذرنے کے باوجود ہم شرح خواندگی 50فیصد تک لے جانے اور معیار تعلیم بہتر بنانے کے قابل نہ ہوسکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔