نرسز کا عالمی دن، مسیحاؤں کی مسیحائی کی ضرورت حکومت نرسنگ پیشے کو وقت دیں…تحریر: ناصر علی شاہ

نرسنگ پروفیشن دکھی انسانیت کی خدمت کی وجہ سے مقام اعلی رکھتا ہے اس عظیم الشان پیشے سے منسلک پروفیشنلز دن رات چوبیس گھنٹے سر تسلیم خم مریضوں کو بہترین سہولیات مہیا کرنے کے لئے ہمہ وقت چوکس و چوکنا رہتے ہوئے اپنے فرائض منصبی بہترین طریقے سے ادا کر رہے ہیں ان تمام کو یقین اور دل مطمئن ہے کہ اسی خدمت میں دنیا و آخرت کی شرینی موجود ہونے کے ساتھ رب العالمین کی رضا بھی شامل ہے۔

 آج دنیا بھر میں جذبہ انسانیت سے سرشار زخموں اور زخمیوں کی مسیحائی کرنے والی نرسوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے ان دنوں نے احساس دلایا ہے کہ نرسز دنیا کے لیے کس قدر ضروری ہیں۔ کویڈ کے دوران سب کو اپنوں سے دور رہنے، فاصلہ رکھنے کا مشورہ دیا جارہا تھا اپنوں سے دوریاں اختیار کی جاچکی تھی اسی دوران بھی نرسز فرنٹ لائن کا کردار ادا کرتے ہوئے مریضوں کو اکیلا نہیں چھوڑا، بہتریں کونسلنگ اور ہمدردی کیساتھ مریضوں کا خیال رکھا گیا مشکل وقت میں ساتھ رہ کر ثابت کر دئے کہ نرسنگ پروفیش میں ہی انسانی ہمدردی موجود ہے۔

نرسنگ کے مقدس پیشے کی بنیاد ایک اطالوی خاتون جو حاضر سروس جنرل کی بیٹی فلورنس نائٹ اینگل نے 1860 میں جدید نرسنگ کی بنیاد رکھی۔ فلورنس نے اپنے والدین کی مخالفت اور اس وقت معاشرے میں اس پیشے کو باعزت نہ سمجھنے جانے کے باوجود اس پیشے میں مہارت حاصل کرکے پروفیشن کا وقار بلند کیا اور مریضوں کو بہترین نرسنگ کیئر مہیا کی۔

پاکستان کے اندر نرسز کا وہ وقار نہیں جو جدید ملکوں میں ہے مجبوری یا جاں بوجھ کر نرسز کی کمی کو پورا نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے مریض سٹاف ریشو بڑھ جاتا ہے اور نرسز اپنے قابلیت و صلاحیت آشکار کرنے سے قاصر رہتے ہیں

ہسپتال نرسز کی بدولت چلتے ہیں کیونکہ ہسپتال بہتریں کیئر کی وجہ چلتا ہے ورنہ مریض پرائیویٹ کلینک میں بھی رش لگاتے ہیں مگر وہاں وہ سہولت نہیں ملتی جو ایک نرس مہیا کرتا ہے۔۔۔

ڈاکٹر ظفر مرزا جس نے نرسز کی تعمیر و ترقی میں دل کھول کر حصہ ڈالا اور پروفیشن کی بالادستی قائم رکھنے کی بہترین کوشش کی

نرسز کے مسائل کا حل ہی مریضوں کی صحت کا ضامن ہے اور اسی پروفیشن کی جدیدیت اور قبولیت میں ہی صحت مند معاشرے کا راز پوشیدہ ہے۔

1- اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق 10,000 آبادی کے لئے 5 نرسز ہیں جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایس ایس آر یو نے گزشتہ سال ہسپتالوں میں نرسز کی بے انتہا کمی کے بارے میں حکومت کو آگاہ کرچکی ہے مگر افسوس ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔ وارڈ کے اندر ایک نرس کو 10 مریض، ایچ ڈی یو میں ایک نرس 6 مریض اور آئی سی یو میں ایک نرس ایک مریض ریشو ہوتا ہے مگر پاکستان کے سرکاری اور کے پی کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں ریشو کا تصور ہی نہیں، ایک نرس چار چار وینٹی لیٹر سنبھالنے پر مجبور ہے ڈرا دھمکا کر ڈیوٹیاں لی جاتی ہیں ایم ٹی آئی ہسپتالوں میں ریلیو کرنے اور نکلنے کی دھمکی پر ہی مسیحا ہی مسیحائی کو ترستے ہوئے کام کرنے پر مجبور ہیں کوئی سروس رول کا تصور نہیں، سٹافوں کو سہولیات پہنچانے کا تصور ہی نہیں جس کا تمام منفی اثر مریضوں پر پڑتا ہے۔ ان تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے پرائیویٹ اور گورنمنٹ ہسپتالوں میں نرسز کی کمی کو دور کیا جائے تاکہ بروقت نرسنگ کیئر جو ہر مریض کا حق ہے مل سکے۔

2- نرسز کو مزید ماہر بنانے کے لئے پرائیویٹ نرسنگ کالجز کی معیار کو بہتر بنایا جائے اور ہر صوبے میں نرسنگ یونیورسٹی قائم کیا جائے تاکہ مریضوں اور کمیونٹی کو بہترین صحت سہولیات مل سکے۔

3- ہر صوبے میں نرسنگ ریسرچ سینٹر کھولنا چاہئے تاکہ ریسرچ بیسڈ پریکٹس عام ہو اس کا فائیدہ عوام کو بیماری سے پہلے صحت ٹپس اور دوراں بیماری بہتریں علاج و معالج مل سکے گا

4- نرسز کے لیے علیحدہ ڈائریکٹوریٹ قائم کرنا وقت کا تقاضا ہے نرس ہی نرس کے مسائل سمجھ سکتا ہے مگر افسوس شاہانہ نظام میں نرسز کو ماتحت رکھنے کی مضموم اقدام جو ابھی تک جاری ہے جس کی وجہ نرسز کے مسائل دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں کرپشن کے امکانات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے اور پروفیشنلز کی بھی استعمال ہونے کی اطلاعات ہیں۔

5. ہر ہسپتال کیساتھ ڈے کیئر ہونا چاہئے تاکہ سٹافوں کے بچے وہاں رہے اور سٹاف زہنی طور پر مطمئن ہوکر ڈیوٹی کریں۔

6- سیکرٹریٹ لیول میں نرسز کا نمائندہ، ڈی ایچ او لیول میں نرسنگ آفیسر ہونے چاہیے تاکہ کورڈینشن اچھی ہو اور نرسز کے مسائل بنا کسی تاخیر کے حکام بالا تک پہنچ سکے نہ صرف نرسز بلکہ ہسپتالوں میں بھی اچھے کاموں کو ایمپلیمنٹ کروانے آسانی ہوسکے سب سے بڑھ کر پروفیشن کی نمائندگی ہو۔

7- نرسز کو محدود پریکٹس کی اجازت دیکر رورل ایریاز میں بھجوانا چائیے تاکہ ریسرچ بیسڈ پریکٹس صحیح معنوں میں عوام کو مل سکے اور ڈبلیو ایچ او کا بیانیہ ہیلتھ فار آل درست ثابت ہوسکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔